• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ وہ لوگ جو اعلیٰ شاہرائیں، جی ٹی روڈ کی طرح، ایک اعلیٰ ریلوے سسٹم جو شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا تھا، بیراج، کنال سسٹم 1947 سے پہلے بنا چکے تھے اور اعلیٰ کام کررہے تھے وہ آج اتنے نااہل ہوگئے ہیں کہ نہ یہ سسٹم چلا سکنے کے قابل ہیں اور نہ ہی ان کی صحیح مرمت اور دیکھ بھال کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے 1990 کے عشرے میں ہم نے کورین کمپنیوں کو سڑکیں بنانے کے ٹھیکے دئیے اور چینی فرموں کو کنا ل سسٹم ٹھیک کرنے کا کام سونپا۔ یہ باتیں ایک اور خام خیالی کی جانب میری توجہ مبذول کررہی ہیں اور وہ یہ کہ جنوبی کوریا نے ہماری پانچ سالانہ پلاننگ رپورٹ پر عمل کرکے یہ ترقی اور مقام حاصل کیا ہے۔ مگر یہ باتیں کرنے والے یہ کبھی نہیں سوچتے کہ اگر پاکستان نے یہ رپورٹ لکھی تھی تو پھر پاکستان کیوں اس قدر پسماندہ رہ گیا ہے اور جنوبی کوریا ترقی کرگیا ہے۔ اس کا بہترین جواب جناب غلام کبریا نے اپنی مشہور کتاب Acquisition of Technology in Pakistan میں دیا ہے۔ آپ نے لکھا ہے (اور بہت درست لکھا ہے) کہ ’’پہلی بات جو فوراً نظر آتی ہے وہ یہ کہ جنوبی کوریا میں تعلیم اور خواندگی کو بہت اہمیت دی گئی اور یہ کورین زبان میں کی گئی۔ بیس سال کے اندر تقریباً پوری قوم تعلیمیافتہ ہوگئی۔ ان میں سے اچھی تعداد اعلیٰ تعلیمیافتہ بن گئی، ان میں لاتعداد سائنسداں، انجینئرز اور دوسرے مضامین میں ماہر لوگ تھے اور ہم ایک ناخواندہ اور پسماندہ ملک ہی رہے اور نہ ہی مناسب تعداد میں اچھے انجینئر اور سا ئنسداں پیدا کئے اور نہ دوسرے اسکالر۔ قومی زبان کے بجائے ہم انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنائے ہوئے ہیں۔ ایک اور اہم بات جنوبی کوریا کی ترقی میں وہاں کا جاگیردارانہ سسٹم فوراً ختم کردینا ہے(یہی ہندوستان میں وَلَّبھ بھائی پٹیل نے کیا تھا۔ ہمارے یہاں جاگیرداروں، بڑے بڑے زمینداروں نے ملک کو یرغمال بنا کر پسماندگی میں دھکیلا ہوا ہے اور یہ سیاست دان و حکمراںبن کر ملک کو تباہ کررہے ہیں)۔ حکومت نے تمام زمینوں کو قومی تحویل میں لے لیا اور کسانوں میں بانٹ دیا ہے اور ہر کسان کو 5 ایکڑ زمین دیدی ہے۔ اس طریقے سے جاگیردارانہ نظام ختم کردیا گیا اور صنعتی ترقی کی بنیاد ڈال دی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چاول کی کاشت میں 6.8 ٹن فی ہیکٹارے (یعنی 2.5 ایکڑ) پیداوار ہوگئی جو کہ جاپان کی 6 ٹن سے زیادہ تھی اور یہ صرف 20 سال میں حاصل کرلیا۔ دوسری زرعی پیداواروں میں بھی بہت اضافہ ہوگیا۔ اس کے برعکس پاکستان میںجاگیردارانہ نظام پہلے سے زیادہ طاقتور ہوگیا ہے اور ختم نہیں کیا گیا۔ 1947 میں پاکستان نہ صرف گندم برآمد کرتا تھابلکہ کئی اور زرعی پیداواریں بھی برآمد کرتا تھا۔ چھ سال کے اندر ہی پاکستان نے گندم کی درآمد شروع کردی اور 50 سال بعد پاکستان تمام زرعی پیداواریں (دالیں، سبزیاں، گندم، چینی وغیرہ) درآمد کرنے لگا۔ اس کے مقابلے میں جنوبی کورین باشندے باحوصلہ، متحرک تھے ان میں کفایت کا جذبہ تھا۔ اور 20 سال میں کورین باشندے دنیا کی سب سے کفایت شعار قوم بن گئے۔ یہ جو رقم بچائی گئی تھی وہ ملکی ترقی پر صرف کی گئی۔ پاکستانی بدقسمتی سے کفایت شعار نہیں ہیں اور 1947 میں بھی ان کا بُرا حال تھا اور اب بھی فضول خرچی میں ماہر اور کفایت شعاری سے نابَلد ہیں۔ ‘‘
ہمیں یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ ٹیکنالوجی اور ترقی جدا جدا یا علیحدہ چیزیں نہیں ہیں۔ یہ دراصل ہماری قومی نفسیات و سمجھ بوجھ کا حصّہ ہیں اور یہی ہمارے معاملات میں فوقیت یا برتری کا تعین کرتی ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی قوم ٹیکنالوجی کو اپنانے یا اس کے حصول میں کامیاب اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ قوم بنیادی تبدیلی اپنی سوسائٹی یا ماحول میں نہیںلاتی۔ اور یہ تبدیلیاں اس وقت تک ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے مفید نہ ہونگی جب تک اس کی جڑیں سوسائٹی میں اچھی طرح قدم نہیں جمالتیں۔ دیکھئے ٹیکنالوجی کی ترقی کے لئے یہ لازمی ہے کہ اس کے لئے ایک نہایت اچھا انفرا اسٹرکچر موجود ہو اور تمام ضروریات تک آسان پہنچ ہو مثلاً تجربہ کار، تعلیمیافتہ کارندے، فنڈز، سائنٹیفک ریسرچ، اعلیٰ انتظام اور کامیاب طریقہ کار جس سے پروجیکٹس کے لئے فنڈز حاصل کئے جاسکیں۔ دیکھئے ٹیکنالوجی آپ کو اعلیٰ مصنوعات بنا کردیتی ہے اور اس کو مزید بہتر بنانے کے لئے تمام سہو لتیں مثلاً فنڈز لازمی ہیں تاکہ جو مصنوعات تیار کی جارہی ہوں ان میں مزید بہتری لائی جا سکے۔ مختصراً ٹیکنالوجی صرف اس وقت حاصل کی جاسکتی ہے جبکہ ملک میں صنعتی ماحول تیزی سے فروغ پارہا ہو۔ اور یہ بنیادی باتیں ہیں جن کا تعلق معاشی منصوبہ بندی اور اس پر ٹھیک طریقے سے عمل کرنا ہے اور جس میں ہم تقریباً ہمیشہ ہی ناکام ہوئے ہیں۔
اس وقت پاکستان کو سب سے بڑا چیلنج وعدوں اور کارکردگی کا وسیع فاصلہ طے کرنا یا کم کرنے کا ہے۔ ایک جانب ہمارے پاس وہ تمام ذرائع موجود ہیں جو اس ملک کو ایک ترقی یافتہ (متحرک) قوم بنا سکتے ہیں مثلاً ہم اچھی فصلیں تیار کرتے ہیں، معدنی ذخائر ہیں، بے انتہا میٹھا پانی ہے (جو ہم جہالت و نااہلی سے ہر سال سمندر میں پھینک دیتے ہیں)، یہی نہیں ہمارے کسان، کان کن بہت محنتی ہیں۔ دوسری جانب ہم دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ ہماری آبادی کا آدھے سے زیادہ حصّہ غربت کی سطح سے نیچے ہے۔ تعلیم اورطبی سہولتوں کا فقدان ہے، خوراک و سبزیوں، صفائی، رہائش اور ہائی جین کا فقدان ہے، زہریلی ملاوٹ ہر کھانے کی چیز میںموجود ہے۔ اگر دوائوں اور کھانے کی صنعتوں کو دیکھیں تو آپ کا دل دہل جائے۔ اتنی گندی اور ملاوٹ افریقہ کے غریب ترین ملکوں میں بھی نہیں ہے ۔ یہاں منافع خور، ضمیر فروش، لوگوں کی زندگی سے کھیلنے والے آنکھ جھپکتے ہی ارب پتی بن گئے ہیں۔ سب سے بڑھ کر افسوسناک اور قابل مذمّت یہ بات ہے کہ خوانگی کی شرح شرمناک حد تک نیچے ہے۔ دو تہائی لوگ نا پڑھ سکتے ہیں نا لکھ سکتے ہیں اور آدھےسے زیادہ عوام کے سر پر نہ چھت ہے اور نہ ٹوائلٹ ۔ لوگ باہر کھلی جگہوں اور نالوں کے کنارے فارغ ہوتے ہیں اور یہ بیماریوں کے پھیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ہمارے بجٹ کا خرچ دفاع پر زیادہ اور تعلیم و سوشل کاموں پر بہت کم ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی عقلمندی ان کا ریسرچ و تعلیم کے بجٹ سے ظاہر ہے۔
یہ وہ تمام مسائل (اور نااہلیت کی مثالیں) ہیں جو ہمارے ملک کوردپیش ہیں۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ریسرچ تبدیلی (بہتری) کی جڑ ہے، سائنس خوشحالی کی شاہراہ ہے اور ٹیکنالوجی کامیابی کی ضمانت ہے۔ ہمیں سخت جدّوجہد کرکے اس میں مہارت حاصل کرنا چاہئے۔ ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعلیٰ آلات وسہولتیں حاصل کرنا چاہئیں کیونکہ یہی وسائل ایک اعلیٰ ترقی یافتہ سوسائٹی کے ہتھیار ہیں۔ ہماری پوری کوشش یہ ہونا چاہئے کہ ہم چند نہایت اعلیٰ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کریں تاکہ وہ صنعتوں کی ضروریات کے مطابق ریسرچ کرکے ان کی مدد کریں اور ہماری ایکسپورٹ بڑھ سکے۔ دراصل ہمیں ہزاروں انجینئرز اور سائنٹسٹ سالانہ تیار کرنا چاہئیں کہ ہم ترکی، ملیشیا کی طرح جلد از جلد ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوجائیں۔ قبل اس کے کہ میں یہ کالم ختم کروں آپ کی خدمت میں مشہور انگریز۔ امریکن فلسفی و ماہر ریاضی پروفیسر ڈاکٹر الفریڈ نارتھ وائٹ ہیڈ (Prof. Dr. Alfred North Whitehead) کا نہایت اہم اور قیمتی مقولہ پیش کرتا ہوں جو 100 سال سے بھی پُرانا ہے مگر آج بھی سنہری حروف کا مستحق ہے۔ ’’موجودہ جدید دور میں یہ اصول حرف آخر ہے کہ وہ قوم جو اپنے تجربہ کار اور تعلیمیافتہ لوگوں کی قدر نہیں کرتی وہ ذلیل و خوار ہوتی ہے۔ تمھاری تمام بہادری، سوشل جاذبیت، عقلمندی اور تمام زمین اور سمندروں پر فتوحات قسمت کے لکھے کو پیچھے نہیں ہٹا سکتی ۔ آج ہم اپنے آپ کو سنبھالے رکھتے ہیں لیکن کل سائنس ایک قدم آگے بڑھ جائے گی اور پھر اس (پسماندگی) حالت میں آپ (جاہلوں، نااہلوں) کی حمایت میں کسی فیصلے کے خلاف آپ کی اپیل نہیں سُنی جائے گی‘‘۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کا یہی حال ہے اور اس کی تمام ذمّہ داری نااہل حکمرانوں اور ان کے نااہل کارندوں پر عائد ہوتی ہے۔ آہستہ آہستہ مگر یقیناً ملک تباہ ہونے جارہا ہے اور حکمراں اور ان کے حمایتی مالدار سے مالدار ترین ہوتے جارہےہیں۔

تازہ ترین