• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا دیرینہ دوست اور بھائی آصف علی پوتا 8جولائی 2017ء کی شام ہمیں چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنo نوجوان نسل زیادہ تر اُن کو ڈرامہ اور تجزیہ نگار کے طور پر جانتی ہے لیکن وہ نسل جو 1980-90ء کی دہائی میں جوان ہوئی اُسے معلوم ہے کہ آصف علی پوتانے ایک بہت ہی اچھے فیچر رائٹر کے طور پر اپنا نام بنایا —آصف علی پوتا تین نسلوں کو اداس کر گیا ، جس لمحہ آصف علی پوتا کا اس دنیا سے انتقال ہوا تب سے میرے دماغ میں مسلسل ایک فلم چل رہی ہے جس کا آغاز 1981ء میں ہواتھا ، اس سال گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے انٹر کر کے آصف نے بی اے کرنے کیلئے ایف سی کالج میں داخلہ لیا ۔ میں بھی وہیں سے بی اے کر رہا تھا اور طلبہ کی سیاست کے حوالے سے ایک تنظیم کا سرگرم رکن تھا ۔ آصف نے بھی اس تنظیم کو جوائن کیا ، یہ ہمارا پہلا تعارف تھا جو بعد میں دوستی اور رشتہ داری سے بھی مضبوط ہوکر تادم وفات قائم تھا اور اِن شاء اللہ آئندہ بھی رہے گا ۔دوران تعلیم آصف اور میں کالج بلیٹن اور میگزین کے ایڈیٹر رہے ۔ پھر میں بی اے کے بعد ماس کمیونی کیشن میں ایم اے کیلئے پنجاب یونیورسٹی چلا گیا جبکہ آصف نے اپنی سیاسی اور ادبی دلچسپی کی تسکین کیلئے ایف سی کالج سے ایم اے سیاسیات کیا ۔یکم جنوری 1985ء کو جنگ گروپ کو بطور سب ایڈیٹر جوائن کیا جبکہ آصف نے 1986ء کے آخر میں بطور فیچر رائٹر جنگ گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ خوشی قسمتی یہ ہے کہ فیچر سیکشن کو منوبھائی اور عبدالرئوف صاحب کی سرپرستی حاصل تھی اس فیچر سیکشن میں، میں، آصف ، سعید قاضی ، زرقا امتیاز اور افشاں امتیاز شامل تھے ، جنگ گروپ کا فیچر سیکشن پاکستانی پرنٹ میڈیا کا مضبوط ترین سیکشن تھا ۔ اُسوقت ہفتہ وار جمعہ میگزین نکلتا تھا جس میں ہر ہفتے نئے نئے آئیڈیا ز پر فیچر اور تحریریں شامل ہوتی تھیں۔ بہت سے فیچر بطور ٹیم ہم سب مل کر کرتے ، 1988ء میں جنگ میں الیکشن سیل بنا تواس ٹیم میںآصف علی پوتا بھی شامل تھے ۔ ہم نے مل کر جنگ موبائل فورم ،شکایات سیل ، ایف آئی آر ایڈیشن کی بنیاد رکھی ۔ 1996ء میں لاہور سے ایک نئے اخبار کے اجرا سے پہلے جنگ نے روزانہ 24صفحات پر مشتمل اخبار دینا شروع کیا، جس میں 8صفحات پر مشتمل مختلف ایڈیشن شامل ہوتے ۔ جن میں دو صفحات ’’عوام کی آواز‘‘ کے نام سے تھے ،میں انکا ایڈیٹر تھا۔ ان صفحات کو عوامی سطح پر بہت پذیرائی حاصل تھی ۔ اسوقت ہفتہ وار میگزین جمعہ کو شائع ہوتا تھا جو کچھ بلیک اینڈ وائٹ اور کچھ کلر صفحات پر مشتمل تھا لیکن چیف ایڈیٹر نے مہینے میں 24صفحات پر مشتمل مکمل میگزین کلر نکالنے کی ہدایت کی جو میں اور آصف مل کر کرتے ،یہ بھی ایک نئی چیز تھی۔ اس طرح جرنلزم کی دنیا میں ہماری جوڑی بہت مشہور ہوگئی۔ آصف نے جب پہلا فیچر کیا تو سوال پیدا ہوا کہ ’’ محمد آصف ‘‘ تو کامن نام ہے کوئی قلمی نام ایسا ہونا چاہئے جو اثر رکھتا ہو اسطرح منو بھائی نے آصف کے دادا علی کی مناسبت سے آصف علی پوتا نام رکھا اور پھر تادم مرگ ہماری کوئی محفل ایسی نہ تھی جو ’’ پوتا‘‘ کے نام کے بغیر ہو۔
چودہ سال تک آصف باقاعدہ جنگ گروپ سے وابستہ رہے اسی دوران انہوں نے جیو کی آمد سے پہلے اس کیلئے ابتدائی کام کیا تو الیکٹرونک میڈیا میں دلچسپی بڑھ گئی ۔ اسطرح پرنٹ میڈیا کو خیر آباد کہہ کر ذاتی پروڈکشن ہائوس بنا لیا اور کئی ایک ڈرامے پروڈیوس کئے۔ آصف کو فلمیں بنانے کا شوق بھی ہوا جو بڑا رسکی کام تھا لیکن آصف نے اپنی ساری جمع پونجی لگا دی فلم’’ فائر‘‘ کامیاب نہ ہوسکی۔ اس طرح آصف کو ذاتی طور پر بہت بڑا معاشی دھچکا لگا تو پروڈکشن ہائوس کے کام کو محدود کر کے نجی چینل کو بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور پروگرام ڈائریکٹر جوائن کرنا پڑا۔ ابھی چھ مہینے پہلے آصف کو ڈینگی بخار ہوا تو پلیٹ لٹس بہت کم ہوگئے ،رمضان سے چند روز پہلے زیادہ ہی کم ہوگئے اور وزن گرنے لگا ، جب عید الفطر سے ایک روز پہلے میں ملنے گیا تو بہت کمزور پایا ، میںنے کہا بھائی طبیعت اتنی خراب تھی تو روزے قضا کر لیتے لیکن یہ جواب مجھے کچھ عجیب سا لگا کہ پتہ نہیں پھر رکھ بھی سکتا یا نہیں ۔ آصف کی 54 سالہ زندگی اور خصوصاً 30سالہ صحافتی زندگی اتنی بھر پور تھی کہ لگتا یہ ہے کہ سو سال سے بھی زیادہ ہے ۔ آصف کی خواہش تھی کہ انہیں بہت جلد شہرت ملے ، کام سے اس کا نام پیدا ہواور یہ ہوا بھی۔ ایک مرتبہ صحافت کے ابتدائی دونوں میں ’’ میں اور میرا فریج‘‘ کے عنوان سے مشہور لوگوں کے خیالات پر مشتمل فیچر کرنے گیاتو اسوقت پاکستان کی ٹاپ کی گلوکارہ ناہید اختر کو دل دے آیا جسکا انجام چند برس بعدشادی کی صورت میں نکلا جو آخری دم تک قائم رہا ۔ آصف کو سیاست میں بھی بہت دلچسپی تھی ابتدائی سالوں میں الیکشن لڑا پھر بعد میں کئی دوستوں کی الیکشن مہم کے انچارج بھی رہے ، ہم نے صحافت کے ابتدائی دنوں میں مل کر ’’ حملہ‘‘ کے نام سے ایک روزنامہ نکالنے کی کوشش کی مگر اپنی تنخواہوں سے زیادہ عرصہ اسکی اشاعت برقرار نہ رکھ سکے۔
ہمارا دوست بھائی اور ساتھی مختصر علالت کے بعد انتقال کر گیا ۔ وہ بات جس کا میں انکشاف کرنے لگا ہوں کہ وہ بہت خوددار، حساس اور یار بادشاہ آدمی تھا جب اس کے پاس پیسے ہوتے تو وہ دوستوں کیلئے محفلیں سجاتا اور بہت بڑا حلقہ احباب اکٹھا کر لیا لیکن جب فلم کی ناکامی کے بعد معاشی دبائو میں آیا تو پھر کبھی یہ معاشی خلا بھر نہ سکا ۔ آصف کی زندگی فلمی ہیرو جیسی تھی جس نے بہت کم وقت میں بہت زیادہ شہرت حاصل کی اور عروج دیکھا لیکن جب معاشی حالات خراب ہوگئے تو دنیا دار دوست دنیا کے ساتھ مل گئے ۔ ان دونوں چیزوں نے دیمک کی طرح آصف کو اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا لیکن اپنی خود داری کا بھر م قائم رکھنے کیلئے خاموشی اختیار کی۔ آصف نے اپنے صحافتی کیریئر میں’’ کہانی ایک درخواست کی ‘‘ کے نام سے ایک خوبصورت تحریری سلسلہ شروع کیا۔ جس میں کسی مسئلے کو لیکر متعلقہ محکموں تک لے کر جاتا اور اصل حقائق سامنے لا کر شائع کرتا جس سے عام لوگوں کے مسائل حل ہونے میں مدد ملتی ۔ میں آصف کی درخواست کہانی اس کی زندگی میں تو نہیں لکھ سکا مگر وفات کے بعد لکھ رہا ہوں ایک اور بات جو جرنلزم کی فیلڈکے حوالے سے بڑی اہم ہے کہ سوائے قلیل تعداد کے باقی جتنے بھی ورکنگ جرنلسٹ ہیں جن کا انحصار صرف جرنلزم پر ہے کوئی دوسرا ذریعہ معاش نہیں اُنکی جاب کی کوئی سیکورٹی نہیں، نہ تو حکومتیں باقاعدہ طے شدہ نجی ملازمین کو قانونی تحفظ فراہم کراسکی ہیں اور نہ ہی صحافتی تنظیمیں ۔ پھر اس فیلڈ میں بعض نا ن پروفیشنل مالکان کے غلبے نے صحافتی اقدار اور ورکنگ جرنلسٹوں کے استحصال کو خوب چمکایا ہے۔ چونکہ کوئی پنشن نہیں ، انسان 30سال کی صحافتی کی خدمت کر کے بھی خالی ہاتھ رہتا ہے ۔ نہ اپنا گھر نہ بنک بیلنس،اسلئے مجھے وزیراعلیٰ شہبازشریف سے درخواست کرنی ہے کہ آصف علی پوتا ایک غیر جانبدار صحافی تھا اسکی کسی سے وابستگی نہ تھی ۔ گو آپ کیلئے مشکل ہوگا مگر ’’اگر آپ اس کے ایک بیٹے کو ملازمت دے دیں تو اللہ آپ کو اجر دے گا‘‘ ۔ ویسے اگر حکومتیں صحافیوں کیلئے ملازمتوں کے قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنالیں تو ایسی درخواستیں حکمرانوں کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہی نہ رہے ۔ مگر کیا ہے کہ حکمرانوں نے بھی سیاست کرنی ہے ، صحافیوں کے مسائل حل ہوگئے تو سیاست ختم ہو جائیگی!

تازہ ترین