• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پینے کا پانی ۔۔۔۔زندگی یاموت سیدمنہاج الرب

minhajur.rab@janggroup.com.pk

صاف پانی ایک نعمت ہے اور انسانی زندگی کا دارومدار اور صحت اس کی شفافیت پر منحصر ہے۔ اگر یہ صاف ہے تو زندگی میں سکھ ہے اور خراب ہوجائے تو اسپتالوں کے اسپتال بھر جاتے ہیں ۔گندے پانی کی وجہ سے مہلک بیماریوں کا شکار سب سےزیادہ عام آدمی ہوتا ہے۔ جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دباہوا ہوتا ہے اور کسی نہ کسی طرح اپنے بچوں کا پیٹ بھرتا ہے ۔مگر جب اس کا سامنا گندے پانی کی وجہ سے مہلک بیماری سے ہوتا ہے اور اس کا بچہ تکلیف سے روتا ہے تو ماں باپ کا دل کٹ جاتا ہے اور ان کی پکار عرش کو ہلادیتی ہے ۔اس لیے کہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ روز منرل واٹر خریدے یا بچے کا علاج کرائے۔سندھ پیپلزپارٹی کا گڑھ ، حکومت ان کی، لوگ ان کے،حکمرانوں کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں، فل پروف سیکیورٹی کا نظام، بیرون ملک علاج کی مفت سہولتیں۔۔۔۔۔مگر عوام کے لیے پینے کا صاف پانی بھی نہیں اس قدر غلیظ پانی کے ہرسال کتنے ہی بچے اور بڑے مہلک بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں جن میں ٹائیفائیڈ،اسہال ، یرقان،ہیضہ ، جگرمیں پس ، مختلف اقسام کی پیچش وغیرہ شامل ہیں۔گندے پانی کی شکایت پورے پاکستان میں عام ہے ۔ہر سیاست دان اپنی سیاست کی دوکان کھولتا ہے تو سب سے پہلے پانی کی فراہمی اور خاص طور پہ صاف پانی کی فراہمی کا وعدہ کرتا ہے جس سے لوگ خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ شاید ہمیں صاف پانی مل جائے گامگر کچھ نہیں ہوتا ۔اعلی عدلیہ کے حکم پر واٹرکمیشن کے سامنے ایک سائنٹفک رپورٹ پیش کی جاتی ہے جو پورے پاکستان کوہلادیتی ہے اور جج صاحبان یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ اتنا گندہ اور غلیظ پانی سپلائی ہورہا ہے جس میں انسانی فضلہ شامل ہے کہ وضو کرتے ہوئے بھی ڈرلگتا ہے ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے یہاں پینے کے پانی کی لائنیں اور نکاسی آب (سیوریج)کی لائنوں کے درمیان میں بین الاقوامی معیار کے مطابق فاصلہ نہیں رکھا جاتا ۔تکنیکی طورپہ سییوریج لائن کوپانی کی لائن سے 40 فٹ نیچے ہوناچاہیئے مگرافسوس ہمارے یہاں یہ برابرچلتی ہیں اور اکثرمقامات پرمل جاتی ہیں جس کی وجہ سے پانی میں انسانی فضلے کے اجزاپائے جاتے ہیں ۔یہ وہ خرابی ہے جس کے بارے میں ہمارے حکومتی عہدیداران یہ کہتے ہیں کہ ہم کوشش کررہے ہیں مگر 70 سال کی خرابی کو 4 مہینوں میں ٹھیک نہیں کرسکتے۔جبکہ ہر سال پانی ، سیوریج کے لیے بجٹ میں رقم مختص کی جاتی ہے ۔دوسری طرف اختیارات کی کمی کا رونا ہے جوسمجھ سے بالاتر ہے کہ آپ اگرسیکریٹری کے عہدے تک پہنچ جاتے ہیں اورآپ کو یہ شکایت ہے کہ آپ چوکیدار نہیں بدل سکتے لیکن آپ عہدے پربرقرار رہتے ہیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بھی شریک جرم ہیں۔دوسری طر ف واٹربورڈ کے ایم ڈی کو بھی اختیارات کی کمی کی شکایت ہے۔ جب ان کے پاس اختیارات ہی نہیں توعہدے پہ بیٹھ کر کیا وہ صرف تنخواہ اورمراعات کے مزے لے رہے ہیں یا غیرقانونی کاموں میں مددفراہم کررہے ہیں؟کیا ان میں سے کسی کا بھی ضمیر ملامت نہیں کرتا کہ انسانی جانوں اورصحت کے بدلے یہ اپنے عہدے سے غداری کررہے ہیں۔کیونکہ یہ دونوں محکمے "انسانی بنیادی ضرورت "کے ہیں۔اب اگر حکومتی عہدیدار جج صاحب کے سامنے کھڑے ہوکر یہ کہتے ہیں کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ سات دہائیوں کی خرابی کودورکردیں ۔ مانا کہ یہ سالوں کا مسئلہ ہے مگرکیا کبھی کسی حکومت اور حکومتی عہدیدار نے اس کو حل کرنے کی کوشش کی ؟بے شک 4 مہینے کافی نہیں ہیں ۔ مگروہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ کسی کام کو ختم کرنے کے لیے اس کو شروع کرنا ضروری ہے اگر چار مہینوں میں کوئی کام ہی شروع نہیں ہوا تو ختم کب اور کیسے ہوگا ؟چار مہینوںمیں اربوں روپے لگاکر سڑک کی استرکاری تو کی جاسکتی ہے مگر ان مہینوں میں صاف پانی کے لیے ایک پائپ کا ٹکڑا بھی نہیں ڈالا جاتا۔ بیچاری عوام توعدالتوں کی طرف ہی دیکھ رہی ہے کہ اوپر اللہ ہے اورنیچے انصاف فراہم کرنےو الے ادارے ہیں۔ اور اب یہ نوبت آگئی ہے کہ جو کام وزیراعلیٰ کو کرنا چاہیئے تھا وہ عدالت کے جج صاحبان کررہے ہیں۔کراچی میں ہردفعہ جب پانی کی خرابی کا مسئلہ اٹھتا ہے تو کراچی واٹربورڈ پہ ڈال دیا جاتا اوراس کے ایم ڈی کو برا بھلا کہاجاتا ہے لیکن مگرکیا اس ادارے کو وہ وسائل بھی مہیا کئے جاتے ہیں جن کی بدولت پرانی پانی کی لائنوں، قدیم فلٹریشن پلانٹس کو جدید بنیادوں پہ تبدیل کیاجاسکے؟اور یہاں سیاسی بھرتیوں کے بجائے میرٹ پہ تکنیکی افراد کو ملازمتیں دی جائیں ۔غیرقانونی ہائیڈرنٹس کا نظام چلانے والے جب سیاسی لوگ ہوں گے اور وہ بھی صوبائی اسمبلی کے ممبر تونظام کیسے بہترہوگا؟دوسری طرف رپورٹ میں ایک انتہائی حیرت انگیزانکشاف ہے کہ تھر کاپانی سب سے صاف اور بہتر ہے جبکہ کراچی میں حالت بدترین ہے جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔کچھ عرصہ قبل تھر میں بچوں میں اسہال کی اور دوسری پیٹ کی بیماریوں کی وجہ سے اموات بڑھ رہی تھیں توسابق صدرآصف علی زرداری نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے تھر میں جدید نظام کے ذریعے صاف پانی مہیاکرنے کا بیڑااٹھایاان کی وجہ سے سینکڑوں گاؤں کو صاف پانی ملا ۔یہی دلچسپی اب وہ شہروں میں بھی لیں اور جنگی بنیادوں پریہ کام شروع کرواکے پائے تکمیل کو پہنچائیں۔کیونکہ صاف پانی کی فراہمی انسانی صحت کے لیے بہت ضروری ہے اور اس کے لیے ایک منظم ومربوط منصوبہ بنایاجائے جس سے پانی کے نظام اور سیوریج کے نظام میں بہتری لائی جاسکے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب پانی اور سیوریج کی اسکیمیں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر بنیں اور چلیں۔ورنہ حکومتی منصوبوں میں توصرف بھلا حکمرانوں اور حکومتی عہدیداروں کا ہوگااورایک وقت آئے گا کہ غریب آدمی کی صرف آنکھوں میں پانی رہ جائے گا۔

تازہ ترین