• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس پر آئین و قانون کے مطابق عدالتی کارروائی کے مقابل بذریعہ آلودہ سیاسی ابلاغ جو دھماچوکڑی مچائی جا رہی ہے اس میں جمہوری اقدار کو اورکتنا اور کیسے کیسے پامال کیا جائے گا ؟اپوزیشن کے دفاع میں حکمران خاندان کا دفاع تو بنتا ہے یہ بھی مانا کہ دوسری جانب کی کرپشن اور گھپلوں کی نشاندہی بھی، لیکن حکمران خاندان اور ان کے حامی مخالفین کی کرپشن پر انتظامی کارروائی کیوں نہیں کر رہی، عدلیہ سے رجوع کرنے میں گریز کے کیا معنی،کوئی بھی قانونی حکومتی کارروائی انتقامی نہیں ہوتی۔ن لیگ نے فقط عمران خان کو الیکشن کمیشن اور عدلیہ سے نااہل قرار دلوانے کی جو قانونی جدوجہد شروع کی ہے وہ سیاسی معلوم دیتی اور محدود ہے، تاہم یہ پاناما کے مقابل بہت بے ضرر ہونے کے باوجود ن لیگ کا رائٹ ٹریک اور روایتی سیاسی دائرے سے باہر نکل کر قانون کو مقدم بنانے کا قدم ہے۔ رہا پاناما اس پر ’’کچھ نہ ہونے‘‘ کی روایتی اپروچ کے دعویدار آج کچھ ہونے پر اتنے سیخ پا کیوں ہیں ؟ جبکہ جو ہو رہا ہے وہ سیاسی مخالفین کے عدلیہ سے رجوع کرنے کا نتیجہ اور آئین و قانون کی پیروی ہے۔ اسے اندرونی سازش قرار دیکر اشاروں کنایوں میں ذمہ دار ریاستی اداروں کو عوام کی نظر میں مشکوک بنانے کی تگ ودو گمراہ کن ہے، تبھی تو بات نہیں بن رہی عوام نے اس واویلے کو لغو جانا تو اب بعض متاثرین احتساب جاری مثالی عدالتی عمل کو بین الاقوامی سازش قرار دے رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ یہ بھارت اور امریکہ نے سی پیک کوسبوتاژ کرنے کے لئے تیار کی ہے۔سی پیک بنیادی طورپر ترقی پسند چینی قیادت کا وہ وژن ہے جو عظیم دوست پاکستان کے وسیع تر اور جاری و ساری قومی مفادات سے خوب گڈمڈ ہوگیا۔شاید یہ پاکستان اور چین کے مثالی دو طرفہ اور سراپا خلوص پر مبنی قابل رشک دو طرفہ تعلقات کا نتیجہ ہے کہ سی پیک کی تکمیل کے لئے چین جتنا پرعزم ہے اتنا ہی دل و جان (اور اپنے بے پناہ فوائد کے لئے ) پاکستانی قوم نے اسے قبول کیا ہے۔ پاکستان کی حد تک اس کے دو چیلنج ہیں، ایک اس کے تحفظ کا کہ بھارت اس کے اعلان پر اس سے اپنی دشمنی چھپا نہ سکا اور بڑی دیدہ دلیری سے اس نے اس کا اعلان کیا۔ اس سے نمٹنے کے لئے پاکستان کی تینوں مسلح افواج تیار ہیں۔ ہمارا دوسرا چیلنج سی پیک کو اپنی سرزمین میں کرپشن فری رکھنا ہے۔ چین میں تو کرپشن کی سزا موت ہے جو عملاًہوتی بھی ہے۔ پاکستان کے موجود گلے سڑے نظام میں سی پیک کو کرپشن فری رکھنا بلاشبہ بڑا چیلنج ہے۔ ملک میں گھپلے ہی گھپلے کا اعتراف کرنے والی حکومت نے سی پیک کو گھپلوں سے محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام اب تک نہیں کیا۔ الٹے عوام کے تحفظات بہت واضح ہیں اس کی کتنی ہی تفصیلات عوام سے چھپائی جا رہی ہیں عوام کی معلومات اور ٹیکنوکریٹس کے اذہان میں اٹھنے والے سوالات کے جواب دینے کے لئے تادم اس کا کوئی مرکز اطلاعات یا ویب سائٹ کا ابھی تک کوئی اعلان نہیں ہوا۔ نندی پور پاور پروجیکٹ مشکوک ہو گیا بہاولپور کا سولر انرجی پاور مقررہ ٹارگٹ پورے نہیں کررہا عوام سے بالا بالا اولین ترجیحات سے دور اورنج ٹرین اور ایسے دوسرے Unwanted, Undesiredپروجیکٹس مسلسل مشکوک اور اپنے ساتھ دس سوالات لئے ہوئے ہیں جن کا جواب نہیں دیا جاتا صرف ریکارڈ جلتےہیں۔
سی پیک کا یہ آغاز اورپاناما لیکس سے بے نقاب ہونے والے حقائق بھی اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان کے عظیم مفادات کے اس مشترکہ پاک چین منصوبے کو ہر حال میں کرپشن فری بنایا جائے۔ اگر حکومت نے اس کے لئے اپنے پارٹ میں کچھ نہیں کیا (الٹا کچھ منصوبے حکومتی رویے سے مشکوک ہو گئے ) تو قدرت نے سی پیک کے آغاز پر ہی پاناما نازل کردیاجو پاکستان میں سب سے بااختیار منصب کے احتساب کی انہونی کے ہونی میں تبدیل ہو کر جاری و ساری ہے۔ سی پیک کو شفافیت سے مکمل کرنے کا بھی تقاضا ہے کہ پاناما کیس کا فیصلہ آئین و قانون کی روشنی میں آکر اس کے مطابق نافذ العمل ہو۔ واضح ہونا چاہئے کہ سی پیک کی تکمیل برسوں پر محیط ہے اور پاکستان میں احتساب کا وہی عمل مطلوبہ نتائج دے گا جو ٹاپ سے باٹم کی طرف جاتا ہوا تھانہ کچہری کلچر کو عوام دوست، شفاف اور آسانیوں کا ساماں بنائے گا۔ بفضل خدا یہ شروع تو ہو گیا جسے سی پیک کے ترقیاتی عمل کے متوازی جاری رکھنا ہو گا۔جس طرح ٹاپ ٹو ڈائون احتساب پاکستان میں جمہوریت، فراہمی انصاف، گڈگورننس اور سیاسی عمل کو صحت مند اور شفاف بناتا جائے گا اسی طرح سی پیک کا کرپشن فری ترقیاتی عمل ہمارے قومی اور نیچے کی ترقیاتی پروجیکٹس کی تکمیل کے عمل کو بھی شفاف بنانے لگے گا۔
یہ تو پاکستان میں ٹاپ ڈائون احتساب کے آغاز اور سی پیک کے حوالے سے شفافیت کی بڑی قومی ضرورت ہے پاکستان کوکرپشن فری بنانے اور ملک میں آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنے خصوصاً تمام بلاامتیاز شہریوں پر قانون کے یکساں اطلاق کو ممکن بنانے کیلئے بے حساب احتساب مطلوب ہے۔اس کے لئے ٹیکس نظام میں اصلاحات لانی ہیں ہر حال میں جس کا جتنا ٹیکس بنتا ہے وہ اس سے وصول کرنا ہے اور ٹیکس کا بوجھ کروڑوں غریب و مفلوک اور متوسط عوام سے ہزاروں اور لاکھوں امراء صنعت کاروں، بڑے تاجروں، امیر ترین حکمران طبقے اور اعلیٰ مناسب کے سویلین اور فوجی حکام کی طرف موڑتا ہے یہ احتسابی نوعیت کی قانون سازی کے بغیر ممکن نہیں۔
موجودہ حکمران شریف خاندان اور ان کے جائز و ناجائز بینی فشریز سے موجودہ ملکی صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ وہ پاکستان کو غریب کرکے جتنے امیر ہوئے ہیں اب اس کے استحکام، سلامتی اور عوام کے انتہائی بنیادی اور آئینی حقوق کی بازیابی کے لئے خود اپنے اور اپنی نسلوں کے سکون کے لئے مطلوب بے حساب احتساب کو حقیقت پسندی سے تسلیم کرلیں۔مطلوب کا مطلب ان سب کا احتساب ہے جن کا جتنا بنتا ہے اور جب بنتا ہے کیا جائے۔ احتساب کو دبائے رکھنے کے لئے ’’مفاہمت‘‘ کی منافقانہ مکاری اب نہیں چلے گی۔ ن لیگ برسراقتدار اور مکمل بااختیار ہے اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ شریف خاندان کے مقابل اور مخالف کس کس کا احتساب بنتا ہے اس نے کسی سے مطالبہ نہیں بطور حکمران خود کارروائی کرنی ہے۔ پاناما کیس کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف منصب پر نہیں رہتے تو حکومت تو ن لیگ کی ہی رہے گی جسے انتخاب سے قبل احتساب کے عمل کو آگے بڑھانے اس سے عوام دوست نتائج حاصل کرنے کے لئے بنیادی اور دوررس نتائج کے حامل احتساب اقدامات کرنے چاہئیں۔ مان لیا جائے کہ ملک میں احتساب ہےحساب مطلوب ہے جو اب ناگزیر ہے کون کافر کہتا ہے کہ احتساب صرف شریف خاندان کا ہی ہو لیکن سردست جن کا ہونا ہے وہ بطور حکمران کرنا انہوں نے ہی ہے ڈر لگتا ہے کوئی اور مصلحت ہے اور نہیں کر سکتے تو اقتدار ہی نہیں سیاست بھی چھوڑ دیں کہ احتساب ناگزیر ہے۔

تازہ ترین