• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک روز ہلاکو خان اپنے وزراء سے کہنے لگا کہ’’شکر ہے میں نے ظلم نہیں کیا.....‘‘ ہلاکو خان کے منہ سے ایسا جملہ سن کر سب وزیر حیران رہ گئے، اسی حیرت میں ایک وزیر اٹھا اور کہنے لگا.....’’اگر جان کی امان پائوں تو عرض کروں‘‘ بادشاہ نے اجازت دی تو وزیر بولا’’وہ جو ہم آپ کے حکم پر انسانوں کا قتل عام کرتے تھے، وہ جو ہم انسانوں کو قتل کرکے کھوپڑیوں کے مینار بناتے تھے، کیا یہ سب ظلم نہیں تھا‘‘۔ اپنے وزیر کی یہ باتیں سن کر ہلاکو خان بولا .....’’نہیں، ظلم نہیں، وہ حکمرانی کا تقاضا تھا، ظلم تو یہ ہوتا ہے کہ آپ کسی نااہل کو ایسے عہدے پر مسلط کردیں جس کا وہ اہل نہ ہو‘‘۔
ابھی ایک پیرا گراف لکھا ہے کہ میرا ایک بزرگ دوست ملنے کے لئے آگیا ہے۔ اس وقت عوامی ڈیرے کا منظر یہ ہے کہ ڈرائنگ روم میں ٹی وی آن ہے کیونکہ سپریم کورٹ میں اہم ترین مقدمے کی سماعت جاری ہے، کافی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، میں گزشتہ رات گھر نہیں گیا تھا، اپنے ڈیرے ہی پر تھا، سیاسی خبروں کا’’ٹھرک‘‘ رکھنے والے صبح سویرے ہی میرے ڈیرے پر پہنچ گئے ہیں، یہ ڈیرہ اسلام آباد کے قلب میں ہے، یہاں ہر آدمی اپنی مرضی کی بات کرسکتا ہے، یہاں آزادی اظہار کا مکمل ’’چہرہ‘‘ ہے، ہر کوئی اپنی مرضی کا تبصرہ کرسکتا ہے بہت سے دوست گپ شپ لگارہے ہیں، یہ منظر ہے جس میں بیٹھ کر میں’’جنگ‘‘ کے قارئین کے لئے لکھ رہا ہوں۔
گجرات سے آئے ہوئے چوہدری صاحب کا کہنا ہے کہ’’صدر ممنون حسین ولی آدمی ہیں، انہوں نے ایک سال پہلے ارشاد کیا تھا کہ پاناما قدرت کی طرف سے آیا ہے، اب بڑے بڑے لوگ کٹہرے میں آئیں گے، کسی کا حساب مہینے میں ہوگا، کوئی چھ مہینے بعد سامنے آئے گا، کسی کو سال لگ جائے گا اور کسی کو ڈیڑھ سال لگے گا۔ صدر صاحب کے ان تمام ارشادات کی ویڈیو موجود ہے۔ وہ کسی تقریب سے خطاب کررہے ہیں‘‘۔ چوہدری صاحب کی بات ختم ہوئی تو سرگودھا کے شاہ جی نے ایک اور مثال دے ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ’’.....پچھلے پیر کے روز جب نہال ہاشمی سے متعلق سپریم کورٹ میں سماعت ہورہی تھی، جب فرد جرم لگ رہی تھی تو نہال ہاشمی کے وکیل نے کہا’’جج صاحب!شیطان کو بھی ایک مرتبہ وارننگ دی گئی تھی، مہربانی کرکے وارننگ دے دیں‘‘، مگر وکیل صاحب کی بات کو مسترد کردیا گیا اور نہال ہاشمی پر فرد جرم عائد کردی گئی‘‘۔ شاہ جی نے اس کے بعد سرگودھا اور شاہ پور کے کچھ واقعات سنائے، ان واقعات کو سن کر انسان ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوجاتا ہے۔ شاہ جی کی پوری باتیں یہاں نہیں لکھی جاسکتیں۔
لاہور سے آئے ہوئے خوبصورت آدمی سید عمار گیلانی پوری محفل کو بتانے لگے’’حضرت علیؓ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ آپؓ کہتے ہیں کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے، جھوٹ نقصان دیتا ہے، جھوٹ انسان کو رسواء کردیتا ہے مگر میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو جھوٹ بولتا ہے، جھوٹ بول کر ترقی کررہا ہے، اس کے پاس بہت سی دولت جمع ہوچکی ہے، اسے لوگ عزت دیتے ہیں، اس کا تو جھوٹ کوئی نقصان نہیں کرسکتا،اسے تو جھوٹ رسوائی نہیں دے سکا۔جب وہ شخص اپنی بات مکمل کرچکا تو باب العلم حضرت علیؓ فرمانے لگے’’ اے شخص! سن لو، تم جس آدمی کی بات کررہے ہو، اس کی ساری ترقی، اس کی ساری دولت، اس کی ساری عزت کچھ عرصے کے لئے ہے، کچھ عرصے بعد وہ وقت آنے والا ہے کہ لوگ اسے رسوائی میں دیکھیں گے، اس کی عزت کوئی نہیں کرے گا، اس کی ترقی، اس کی دولت، اسے رسوائی سے نہیں بچا سکے گی حتیٰ کہ وہ مررہا ہوگا اور لوگوں سے پانی مانگے گا تو لوگ کہیں گےجھوٹ بول رہا ہے، لوگ اس کے پانی مانگنے کو بھی جھوٹ سمجھیں گے....‘‘
یہ سب باتیں ہوچکیں تو میرا بزرگ دوست بولا ....’’تم لوگ کیا ہو، تم لوگ بڑے عجیب ہو، تم اپنے اپنے علاقوں میں نااہل لوگوں کو چنتے ہو، تمہارے علاقوں سے چور اچکے منتخب ہوتے ہیں، تم خود کرپٹ افراد کا انتخاب کرتے ہو، تم جرائم پیشہ افراد کو چنتے ہو، میں تو تمہاری سوچ پر حیران ہوں، خود ہی چوروں کی بارات چنتے ہو، خود ہی پچھتاتے ہو، خود ہی روتے ہو، اسی لئے میں کہتا ہوں کہ تم کیا لوگ ہو.....‘‘
سپریم کورٹ میں جاری اہم ترین مقدمے کی سماعت آج تک ملتوی ہوگئی تھی، آج دوبارہ سماعت ہوگی، اس اہم ترین کیس پر پوری دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں جس وقت سپریم کورٹ میں اہم ترین مقدمے میں دلائل دئیے جارہے ہیں عین اسی وقت لاہور ہائی کورٹ میں میاں شہباز شریف کی نااہلی کی درخواست بھی منظور کرلی گئی ہے۔ اس درخواست کی سماعت بھی آج سے شروع ہوجائے گی، ہم سب دوستوں کی اپنے ملک کے لئے دعا ہے، خدا جو کرے، ہمارے وطن کے لئے اچھا ہو کہ؎
خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
میں اب تک محفل میں خاموش تھا، میں نے سوچا کہ اب مجھے بھی کچھ کہنا چاہئے۔ ویسے بھی اب دوستوں کا اصرار تھا کہ مجھے بھی کچھ نہ کچھ کہنا چاہئے۔ میں نے عرض کیا کہ بدقسمتی سے پاکستانی جمہوریت کا ماڈل عجیب بن گیا ہے۔ یہاں عام آدمی الیکشن کا حصہ ہی نہیں بن سکتا، یہاں عام آدمی سیاست بھی نہیں کرسکتا، کیونکہ پاکستان میں سیاست دولت کا کھیل بن کے رہ گیا ہے، پاکستان میں امیر لوگ سیاست کرتے ہیں، اس ملک میں غریب آدمی یا درمیانے طبقے کا آدمی سیاست کرہی نہیں سکتا، جب تک پاکستانی سیاست میں عام آدمی یا درمیانے طبقے کے لئے سیاست کے دروازے نہیں کھلتے اس وقت تک بہتری نہیں آسکتی۔دنیا کے جن ملکوں نے بے پناہ ترقی کی ہے وہاں مڈل کلاس کے لوگ سیاست کا حصہ بنے، انہی لوگوں نے اپنے ملکوں کی بہتری کے لئے کام کیا، ان لوگوں کے باعث ان ملکوں میں قانون کی عملداری یقینی بنی مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں قانون بنانے والے ہی قانون توڑتے ہیں، بدقسمتی سے ہمارے ہاں امیر کے لئے قانون کا سلوک اور طرح کا ہے اور غریب آدمی کے لئے انصاف کا حصول بہت مشکل ہے، جب تک قانون کی نظر میں سب ایک نہیں ہوں گے جب تک سب لوگ قانون کا احترام نہیں کریں گے،اس وقت تک بہتری نہیں ہوگی۔ اس لئے میری تمام پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ پیارے پاکستان کی محبت میں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالتوں کے فیصلوں کو تسلیم کرو، آپ اپنی عدالتوں کے فیصلوں کا احترام کرو گے تو آپ کا سر فخر سے بلند ہوگا ورنہ آپ کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ’’تم کیا لوگ ہو.....‘‘کاش! یہ جملہ ہماری ترقی اور قانون کی عملداری پر کہا جائے، لوگ رشک کرتے ہوئے کہیں، واہ، تم کیا لوگ ہو۔ آپ کے حسن ذوق کے لئے؎
چند لمحے جو ملے مجھ کو تیرے نام کے تھے
سچ تو یہ ہے کہ وہی لمحے مرے کام کے تھے

تازہ ترین