• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 پاکستان میں اس وقت عملاً گورننس کے حوالے سے کوئی نظام نظر نہیں آ رہا۔ ملک کے وزیر اعظم اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو بچانے میں مصروف ہیں، اس کی پیروی وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی کر رہے ہیں۔ پنجاب اور اسلام آباد میں تصویری خبرنامہ کے ذریعے سب اچھا ہے، دکھایا جا رہا ہے اور اس کا فائدہ نہ تو جمہوریت کو پہنچ رہا ہے اور نہ ہی ملک کے موجودہ نظام کو! جب ملک میں ہر چیز مفلوج ہو کر رہ جائے تو اس سے کوئی مانے یا نہ مانے، ملکی سیکورٹی کے مسائل بھی بڑھ جاتے ہیں، موجودہ حالات کے پس منظر میں نواز شریف حکومت نے پچھلے کئی ہفتے اس بات میں گزار دیئے کہ ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے اور نظام کو غیر مستحکم کیا جا رہا ہے، بظاہر حکومت اور خاص طور پراس کے کئی وزراء پاک فوج اور عدلیہ (سپریم کورٹ) کا نام نہیں لے رہے تھے پھر دو روز قبل حکومت کو اپنی تکنیکی غلطی کا احساس ہوا تو آناً فاناً حکومتی بیان یہ سامنے آیا کہ ہمارے خلاف غیرملکی سازش ہو رہی ہے۔ اس میں بھی کسی ملک کا نام نہیں لیا گیا حالانکہ کوئی سازش کر سکتا ہے تو وہ بھارت اور اسرائیل ہیں، جو امریکہ کی شہ پر یہ کام کریں، جن کا ہمیشہ سے ایک ہی ایجنڈا ہے کہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا ہو اور افراتفری پھیلنے سے ملک کے حالات خراب ہوں، جس کا فائدہ حکومت اور عوام دونوں کو نہیں ہو سکتا لیکن فہم و فراست کا تقاضا یہی تھا اور ہے بھی کہ ایسی باتیں کرنے سے احتیاط ہی کی جائے تو بہتر ہے، ورنہ وہی ہو گا جو کہ اتوار کو آئی ایس پی آر کو کرنا پڑا اور فوج کی طرف سے کسی بھی قسم کے الزامات مسترد کر دیئے گئے۔ اس طرح کی صورتحال جولائی 1977ء میں بھی پیدا ہوئی تھی اور اس وقت کے فوجی ترجمان کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ پاک فوج سیاسی امور میں مداخلت نہیں کر رہی اور نہ ہی اس کا کوئی ارادہ ہے۔ پھر چند دن بعد ملک میں مارشل لا لگ گیا تھا۔ گو کہ 1977ء اور 2017ء کے وقت اور حالات میں بڑا فرق ہے مگر جب ایک ایجنڈے کے تحت مسلسل کسی کا نام لئے بغیر روز ہی سازش سازش کا راگ الاپیں گے تو پھر سب کچھ ہو سکتا ہے اس لئے ہماری گزارش ہے کہ حکومت صبر و تحمل سے حالات کا مقابلہ کرے اور ایسے بیانات اور حکمت ِ عملی بنانے سے گریز کرے جس سے قومی سطح پر ایک نئی مشکل پیدا کرنے والا بحران پیدا نہ ہو اور پھر حکومت کو پہلے سے بھی زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جمہوری حکومتوں کے ادوار میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں، جس کا بہترین طریق یہی ہوتا ہے کہ جب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے تو پھر اپنی لیگل ٹیم پر اعتماد کرتے ہوئے اداروں سے محاذ آرائی سے گریز کیا جائے تو بہتر ہے۔ اس کے لئے وزیر اعظم نواز شریف کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کر کے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر مصالحت اور نظام چلانے کی سوچ اختیار کرنی چاہئے اور اتحادی جماعتوں سے اعلیٰ اداروں پر تنقید کرانے سے گریز ہر لحاظ سے ملکی مفاد میں ہے۔ اس کے لئے سب کو اپنی اپنی جگہ قربانی دینے کے لئے تیار رہنا ہو گا۔ قربانی کے جذبے سے قوموں کا امیج اور کردار بلند ہوتا ہے مگر اس کے لئے بڑے ظرف اور حوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے جو حکومت اور اپوزیشن سمیت ہر سطح پر ناپید نظر آ رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر رحم کرے اور یہاں عوام کو ان کے معاشی اور سماجی حقوق ملنے چاہئیں جس کیلئے 70سال سے عوام ہر دور میں امیدیں لگا کر بیٹھے ہیں۔

تازہ ترین