• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ کراچی کدھر گیا؟آئل ٹینکرز اور بروقت کارروائی

 گزشتہ ہفتے ادارہ جنگ کے سینئر ساتھی کی اہلیہ کا انتقال ہوگیاجس کے سلسلے میں ہمیں کراچی جانا پڑا اور کچھ دفتری میٹنگوں کے سلسلے میں چار روز تک کراچی میں رکنا پڑا۔
ویسے توہم کراچی1981سے جارہے ہیں ا ور کراچی کے بازار، گلیاں ، کوچے اورگوٹھ وغیرہ بھی کئی مرتبہ دیکھ چکے ہیں، مگر اب کی مرتبہ کراچی کے انتہائی مہنگے اور ایلیٹ کلاس علاقوں کے علاوہ غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں رہنے والوں کے علاقوں میں بھی جانے کا اتفاق ہوا۔یہی کراچی1947میں تمام عرب ممالک کے شہروں سے زیادہ ترقی یافتہ، خوبصورت، صاف ستھرا اور زندگی کی تمام سہولتیں رکھنے والا شہر تھاجبکہ 1947میں دبئی، ابوظہبی، قطر اور دیگر عرب ممالک کے شہر آج کے کراچی سے بھی بدترحال میں تھے۔ مگرآج وہی دبئی ہے جس کا شمار دنیا کے خوبصورت شہروں میں ہوتا ہے۔
یہی کراچی جس میں گاڑیاں اور ٹرام چلا کرتی تھی جدید ریلوے اسٹیشن تھا، ائیر پورٹ تھا۔ یہاں ہر نسل اور ہر قوم کے لوگ آباد تھے، کوئی لڑائی جھگڑا نہ تھا۔ ایسی ایسی مارکیٹیں تھیں جہاں دنیا کی ہر چیز مل جاتی تھی۔ کراچی برصغیر کے ترقی یافتہ شہروں میں سے ایک تھا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ترقی کرتے ہوئے نیویارک کا مقابلہ کرتا، مگر یہ شہر70کی دہائی سے ہی برباد ہونا شروع ہوگیا ۔ یہ پاکستان کا پہلا دارالحکومت بھی تھا جہاںدنیا بھر سے بحری جہاز آتےہیں، تجارت ہوتی ہے آج بھی ملک کے ریونیو کا سب سے بڑا حصہ یہ شہر دے رہا ہے۔
آج یہ حال ہےکہ کراچی کے جناح اسپتال کے مین گیٹ کے باہر ایک گڑھا ہے جس میں کبھی بھی مریض گرسکتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اس اسپتال کے مین گیٹ کے ساتھ مین ہول کھلا پڑا تھا جس میں ہم گرتے گرتے بچے تھے اور ہم نے این آئی سی ایچ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر جمال رضا سے خود کہہ کر اس پر ڈھکن لگوایا تھا۔ شہر کے کئی سرکاری اسپتالوں کے باہر سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں بلکہ گڑھے پڑے ہوئے ہیں جن میں کئی مرتبہ ایمبولینسیں پھنس چکی ہیں۔
اب کی مرتبہ ہم ان سرکاری اسپتالوں میں بھی گئے۔ ان کے اندر کے حالات آئندہ کسی کالم میں بیان کریں گے ،ان کے باہر کے حالات بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ہم نے خود این آئی سی ایچ ، جناح اسپتال، سول اسپتال اور قومی ادارہ برائے امراض قلب کے باہر کے حالات دیکھے ہیں جو انتہائی ا فسوسناک ہیں۔پتا نہیں وہ سندھ گورنمنٹ کہاں ہے ؟جو ہروقت کراچی کو صاف ستھرا شہر بنانے کے دعوے کرتی رہتی ہے۔ آج کراچی کے حالات یہ ہیں کہ ادھر بارش ہوئی ادھر غریبوں کی بستیاں پانی میں ڈوب گئیں اور پانی بھی کئی کئی فٹ جمع ہوجاتا ہے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے جسٹس گلزار احمد پر مشتمل تین رکنی بنچ نے انتظامیہ کو شہر کی فوری صفائی کا حکم دیا ہے۔ صفائی کی ابتر صورتحال پر چیف سیکرٹری کی سرزنش کی گئی جو کام حکومت کو کرنا چاہئے وہ عدالتوں کو کرنا پڑرہا ہے۔ ایلیٹ کلاس کے صرف چند علاقے چھوڑ کر پورا شہر کچرے کا ڈھیر بنتا جارہا ہے۔ کچرے کی وجہ سے کراچی میں چکن گنیا ، ملیریا، ڈینگی اور دیگر خطرناک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ کتنی دلچسپ صورتحال ہے کہ کراچی میں میئر وسیم اختر نے خود کہا ہے کہ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ نے کراچی کا حال برا کردیا ہے۔ دوسری طرف ڈینگی پری ونشن اینڈ کنٹرول پروگرام سندھ کی رپورٹ کے مطابق رواں سال میں صرف کراچی میں350افراد کو ڈینگی وائرس ہوا۔ اس حوالے سے اگر ہم صوبہ پنجاب کا جائزہ لیں تو اس سال ابھی تک صرف دس کیسز سامنے آئے ہیں۔ پنجاب کے وزیر صحت اسپشلائزڈ کیئرکی خدمات ڈینگی کنٹرول کرنے میں لائق تحسین ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق کراچی شہر میں واقع چھ سو سے زائد برساتی نالوں پر 40ہزار سے زائد پختہ تعمیرات و تجاوازت تعمیر ہوچکی ہیں۔ یہ سارا کام پچھلے تیس/ چالیس برسوں میں ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ان نالوں پر تجاوزات تعمیر ہورہی تھیں تو متعلقہ محکمے یقیناً رشوت لے کر آنکھیں بند کرکے بیٹھے رہے۔ آخر ان تجاوزات میں بجلی، سوئی گیس اور پانی وغیرہ کے کنکشن بھی تو دئیے گئے۔پچھلے دنوں جو کراچی میں بارشیں ہوئیں تو ہم بھی ان دنوں کراچی میں تھے۔ قائد اعظمؒ کی رہائش گاہ وزیر مینشن کی طرف جانے کا اتفاق ہوا یہ دیکھ کر سخت دکھ ہوا کہ قائد اعظمؒ کی رہائش گاہ بھی پانی میں ڈوبی ہوئی تھی جگہ جگہ گند اور کچرے کے ڈھیر ہیں۔ غریب آباد، ملیر، لیاری، گلستان جوہر، کورنگی، دہلی کالونی، کس کس علاقے کا نام لکھیں ہر طرف کچرا ہی کچرا۔ اندازہ لگائیں کہ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی ناقص کارکردگی کی بنا پر عدالت میں کیس چل رہا ہے۔ یقین کریں اس قدر بُو اور تعفن تھا کہ بیان سے باہر۔ آپ ان علاقوں سے گاڑی کے تمام شیشے بند کرکے گزریں تب بھی بُو گاڑی میں آجاتی ہے۔
پورا میڈیا کراچی کے کچرے پر شور مچا رہا ہے۔نئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے حلف اٹھانے کے بعد کہا تھا کہ تین ماہ کے اندر اندر کراچی کو کچرے سے صاف کردوں گا۔ اب تو تین ماہ بھی گزرچکے ۔وہ خوبصورت کراچی پتہ نہیں کہاں کھو گیا؟ وہ پی پی پی جو برس ہا برس سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے۔ کاش اس کے کرتا دھرتا ان علاقوں میں ایک رات تو گزاریں تو انہیں پتہ چلے کہ ان کے غریب ووٹر زندگی کس بے بسی اورکسمپرسی سے بسر کرتے ہیں۔
لیجئے پچھلے ہفتے وہاڑی میں پھر ایک آئل ٹینکر الٹ گیا اور پھر لوگ بالٹیاں اور ڈبے لے کر الٹے ہوئے آئل ٹینکر کے پاس پہنچ گئے۔ کیسے احمق لوگ ہیں ابھی احمد پور شرقیہ کے خوفناک واقعہ کو مہینہ بھی نہیں ہوا۔ ابھی لاہور کے سرکاری اسپتالوں میں آگ سے جلے ہوئے زخمی موجود ہیں۔ دو سو دس افراد اس آگ کی نذر ہو چکے ہیں اور پھر لوگ اس واقعہ کو بھول کر وہاڑی میں الٹے ہوئے آئل ٹینکر کے پاس پہنچ گئے۔ یہ تو بھلا ہو وہاڑی کےسمجھ دار ڈی پی او کا جنہوںنےفوری طور پر پانچ پانچ کلو میٹر تک کا سارا علاقہ سیل کردیا اور جو لوگ بالٹیاں اور ڈبے لے کر آئے تھے انہیں وہاں سے واپس بھیجا۔
ڈی پی او عمر سعید ملک نے بروقت کارروائی کرکے سینکڑوں افراد کو مرنے اور زخمی ہونے سے بچا لیا۔ مگر میڈیا نے اس واقعہ کی تشہیر اس انداز میں نہ کی۔ حالانکہ اگر کوئی اچھا کام کرے تو اس کی بھی تشہیر کرنی چاہئے تاکہ دوسرے لوگوں میں جذبہ پیدا ہو۔ اسی طرح اگر احمد پور شرقیہ کی مقامی پولیس بروقت پہنچ جاتی اور بروقت سارا علاقہ سیل کردیتی تو یقین کریں اتنے افراد کی ہلاکت نہ ہوتی۔
ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ حکومت کا جو محکمہ گاڑیوں کے فٹنس کے سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے وہ محکمہ بالکل غفلت کا مظاہرہ کر رہا ہے اس وقت بھی پورے ملک میں ہزاروں آئل ٹینکرز ایسے چل رہے ہیں جو موت کے کنویں ہیں۔ ان آئل ٹینکرز کی عمر پوری ہو چکی ہے پھر جو ڈرائیور ان آئل ٹینکروں کو چلاتے ہیں کیا ان کی ٹریننگ ہیوی ڈیوٹی گاڑیوں کو چلانے کی ہے؟ کیونکہ جو آئل ٹینکر16،24، اور 44 ٹائروںکے ہوتے ہیں ان کو چلانے اور کنٹرول کرنے کے کچھ اصول اور طریقہ کار ہوتا ہے اورذراسی غفلت اور بے احتیاطی کی وجہ سے الٹ جاتے ہیں ۔ چنانچہ متعلقہ محکمے کو چاہئے کہ وہ تمام آئل ٹینکرز کی ظاہری حالت اور انجن کی حالت چیک کرے اور جو بہت پرانے ہوچکے ہیں ان کے استعمال پر پابندی عائد کردے۔
دوسری طرف پولیس کے اعلیٰ افسران کو چاہئے کہ اگر ان کے علاقے میں ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو وہ بروقت کارروائی کریں۔جس طرح ڈی پی او وہاڑی نے کرکے کئی قیمتی جانوں کو بچا لیا۔ عوام کو بھی احساس کرنا چاہئے کہ وہ الٹے ہوئے آئل ٹینکر سے ایک ، دو لیٹر آئل لینے کے لئے اپنی جانوں کو مت گنوائیں۔ ویسے یہ بھی چوری کے زمرے میں آتا ہے۔

تازہ ترین