• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے مطابق بننے والی جے آئی ٹی نے مقررہ وقت میں اپنا تحقیقاتی کام مکمل کردیاہے عدالت عظمیٰ نے اس جے آئی ٹی کے سپرد پانامہ لیکس سے متعلق ابہام اور شکوک و شبہات کے بارے میں واضح اور دو ٹوک معلومات حاصل کرنے کا حکم دیا تھا جو اس ٹیم نے مقررہ وقت میں پورا کر کے اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ کے سپرد کردی جے آئی ٹی کا تو کام ہی تحقیق کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا تھا اس نے اگر متعلقہ افراد سے پوچھ گچھ کی تو کیا غلط کیا چونکہ تحقیق وزیر اعظم پاکستان سے ہوئی تھی جو بر سر اقتدار ہیں ان پر الزام عائد کیا گیا تھا اور ان کی فیملی اس کی زد پر تھی اگر یوں سمجھا جائے کہ جے آئی ٹی در حقیقت حکمران وقت یعنی خود حکومت کے خلاف تحقیق کر رہی تھی تو غلط نہ ہوگا اسی باعث جے آئی ٹی کو ناکام کرنے اور اس کی تحقیقات میں رخنہ ڈالنے روڑے اٹکانے کا کام جہاں حزب اختلاف والے کر رہے تھے وہیں خود حکمراں جماعت کے ارکان عدم اعتماد کا اظہار کر رہے تھے اور اعتراض در اعتراض کیے جا رہے تھے لیکن ارکان جے آئی ٹی نے بھی ایک کان سے سنا دوسرے سے نکالا اور اپنا کام دیانت داری سے کر کے عدالت عظمیٰ کو پیش کردیا، اب جبکہ جے آئی ٹی اپنا کام مکمل کر چکی ہے اور عدالت عظمیٰ نے متعلقہ افراد اور ان کے وکلا کو آٹھ دن کی مہلت اس ہدایت کے ساتھ دی ہے کہ وہ جے آئی ٹی رپورٹ کو اچھی طرح پڑھ لیں اور خوب غور و خوض کر کے آٹھ دن بعد یعنی آنے والے پیر کو جب عدالت میں پیش ہوں تو پوری تیاری کے ساتھ پیش ہوں کسی حیلے بہانے سے وقت ضائع نہ کریں۔
جب عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے مکمل سماعت کے بعد ایک فیصلہ سنایا تو اس پانچ رکنی بنچ کے دو جسٹس صاحبان پوری طرح قائل تھے اور انہوں نے فیصلہ سنا دیا لیکن باقی تین جسٹس صاحبان پوری طرح مطمئن نہیں ہوسکے تھے اس لئے انہوں نے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا اور مزید تحقیق کے لئے جے آئی ٹی بنا دی، اب جبکہ صرف چند دن بعد فیصلہ ہوجانا ہے یقیناً عدالت عظمیٰ کے موقر جج صاحبان کو اگر جے آئی ٹی رپورٹ پر ہی کوئی فیصلہ سنا دینا تھا تو ایسا وہ کرچکے ہوتے لیکن اب جبکہ جے آئی ٹی رپورٹ نے بہت سے معاملات جن پر پردہ پڑا ہوا تھا جن کا ذکر میاں نواز شریف کی فیملی نے دانستہ یا نادانستہ نہیں کیا تھا اس تحقیقات کے ذریعے کھل کر سامنے آچکے ہیں جس پر طرح طرح کے اعتراضات کیے جا رہے ہیں اس سارے قصے میں جس کا ذکر بھی نہیں اس پر تمام ذرائع ابلاغ کے نمائندگان پورے زور و شور سے بحث میں سر گرم ہیں اور اپنے خیالی گھوڑوں کو سر پٹ دوڑا رہے ہیں کچھ حضرات جو تجزیہ کاری میں بہت آگے آگے رہتے ہیں انہوں نے تو آنے والے فیصلہ کے بارے میں بھی فیصلہ سنا دیا ہے ان کے خیال میں جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم صاحب نا اہل ہوچکے ہیں وہ صادق و امین نہیں رہے ان سے نا صرف استعفیٰ طلب کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ عزت اسی میں ہے کہ وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں اور فی الحال پس پردہ رہ کر اپنے جانشیں کو اپنے تابع رکھیںیوں وہ حکومت میں نہ رہتے ہوئے بھی حکمران ہی رہیں گے کیونکہ ان کی پارٹی پوزیشن مضبوط ہے اور اگر کہیں عدالت نے ہی انہیںنا اہل قرار دیا تو پھر وہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے، آئندہ الیکشن کے لئے بھی اہل نہیں رہیں گے۔
عدالت میں پانامہ لیکس سے متعلق مقدمات چلانے کی درخواستیں دی گئی تھیں جس پر طویل بحث و مباحثہ ہوا اور بالآخر اختلاف رائے کے ساتھ ایک فیصلہ سنا دیا گیا وہ سارے مقدمے میاں نواز شریف کی نا اہلیت سے تعلق نہیں رکھتے تھے نہ ان کی ذات سے ان کا تعلق تھا پانامہ کیس میں نہ ان کا نام آیا تھا ہاں ان کے خاندان میں ان کے صاحبزادوں اور صاحب زادی کے نام ضرور آئے تھے ان کی صفائی کا معاملہ تھا اگر اس معاملے کی صفائی درست طریقے سے قانون کے مطابق میاں صاحب دے دیتے تو نہ یہ تحقیقات ہوتی نہ یوں جگ ہنسائی ہوتی نہ پردہ پڑے معاملات یوں جے آئی ٹی کے ذریعے فاش ہوتے اب بقول برقی ذرائع ابلاغ کے رستم زماں اینکر حضرات کے جو اپنا اپنا فیصلہ محفوظ ہی نہیں بلکہ واضح طور پر سنا بھی چکے ہیں اور انہیں امید ہی نہیں بلکہ یقین کامل ہے کہ عدالت بھی وہی فیصلہ سنائے گی جو ان حضرات محترم نے صادر کیا ہے ورنہ پھر یہ سب شور مچانے والے اپنے اپنے انداز فکر کے مطابق اس آنے والے حقیقی فیصلے پر انگلیاں اٹھاتے رہیں گے کیونکہ ان کا تو کام ہی اعتراض اٹھاتے رہنا ہے تمام سیاسی لیڈر صاحبان جنہیں فی الحال فرصت ہی فرصت ہے چاہے وہ حکمران جماعت سے تعلق رکھتے ہوں یا حزب اختلاف سے ہر روز بلکہ ہر وقت بیک وقت کئی کئی چینلز پر موجود ہوتے ہیں اور جے آئی ٹی رپورٹ اور ارکان پر سیر حاصل من پسند تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں اس سے کسی کو فائدہ ہوتا ہو یا نا ہوتا ہو انہیں ضرور تشہیر مل رہی ہے ویسے بھی الیکشن جلد آنے والے ہیں کئی حضرات کو تو گمان ہے کہ میاں صاحب گھبراہٹ میں اسمبلیاں تحلیل کر کے دوبارہ الیکشن نہ کرادیں اس لئے وہ سب حضرات چینلز پر آکر اپنے اپنے خیالات عالیہ سے پاکستانی عوام کو اور خصوصاً اپنے حلقہ انتخاب کے لوگوں کو اپنی صورت دکھا کر اپنا ووٹ بینک پکا کر رہے ہیں۔
حیرانی اس بات پر ہے کہ عدالت عظمیٰ جیسے ادارے کا بھی کوئی خوف نہیں ہر کوئی بڑی فراخ دلی سے اپنا اپنا قصہ سنا رہا ہوتا ہے کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ عدالت یہیں لگی ہوئی ہے جو فیصلہ آنا ہے وہ ان حضرات کے ذریعے نشر کیا جا رہا ہے ہر کوئی کمر کسے میدان عدالت میں اترتا محسوس ہو رہا ہے ہر کوئی لنکا ڈھا رہا ہوتا ہے ان حضرات کا بس نہیں چل رہا ہوتا کہ وہ وزیر اعظم کو فوراً سے پیشتر گھر بھیج کر دم لیں حالانکہ وقت مقرر یعنی پیر سے عدالت کی کارروائی شروع ہوگی اور اس رپورٹ پر دونوں طرف کے وکلا جنہیں عدالت نے تیاری کے لئے آٹھ روز کا وقت دیا تھا اپنی اپنی فہم کے مطابق بحث کریں گے اور اعتراضات کا جواب در جواب کا سلسلہ چلے گا ہوسکتا ہے کہ اس طرح فیصلہ آتے آتے دن یا کئی ہفتے بھی لگ جائیں۔یقیناً یہ وطن عزیز کی تاریخ کا ایک بڑا اہم فیصلہ ہوگا جس پر حکمرانوں کے مستقبل کا دارو مدار ہے اور پاکستان کی آئندہ سیاست کا انحصار ہوگا معزز جج صاحبان ان تمام نکات اور پیچیدگیوں سے پوری طرح آگاہ ہیں اسی باعث انہوں نے جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں دیا اب جو فیصلہ آئے گا وہ پوری تحقیق و تفتیش کے ساتھ جڑا ہوگا۔ اس مقدمہ کی پوری طرح چھان پھٹک ہوچکی ہے اب مدعی اور مدعا علیہ دونوں کو ایک بار پھر موقع فراہم کیا جا رہا ہے تاکہ کسی قسم کا عدلیہ پر حرف نہ آسکے اللہ تعالیٰ ہمارے وطن عزیز کو ہرآفت اور بدعنوانیوں سے محفوظ رکھے، آمین۔

تازہ ترین