• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 گزشتہ روزبھارت کے دارالحکومت دہلی کے مضا فا تی علاقےمیں رونما ہونےوا لےایک واقعہ کو میڈیانےخوب کوریج دی اور نہ صرف اس واقعہ کی کوریج بھارت بلکہ اسکی گونج امریکا کے اخبارات تک جاپہنچی یہ ایک لڑائی کا واقعہ ہے، جو نہ مذ ہب کی بنیادپر تھا اور نہ ہی دو قبیلوں کے درمیان جائیداد کی وجہ سے ۔بلکہ یہ لڑائی ایک بڑے رہائشی کمپلیکس میں کام کرنے والی خادمہ جسے ہم آیاکہتے ہیں اور کمپلیکس کی ایک ورکنگ لیڈی کے درمیان تھا۔لڑ ا ئی شروع ہونےکے بعد آیاکی کچی آبادی کے سارے لوگوں اور رہائشی کمپلیکس کے 2700 گھروں کے مکینوں تک پھیل گئی، جھگڑے کاآغاز آیاپرچوری کے الزام جبکہ آیاکی طرف سے دو ماہ کی تنخواہ کی عدم ادائیگی سے شروع ہوا جس پر آیا کو گھر میں بند کردیا گیا ۔ بعدازاں رہائشی کمپلیکس کے قریبی کچی آبادی کے مکین جہاں آیا اپنے خاندان سمیت گھروں میں کام کرنیوالی دیگر آیائوں اور انکے خاندان کے مرد حضرات رہا ئش پذیرتھےنے مذکورہ رہائشی کمپلیکس پرحملہ کردیا اور بات تھانے پولیس تک جاپہنچی جبکہ 2700 گھروں کے رہائشی کمپلیکس کے مکینوں نے جوابی کارروائی کرتےہوئےاپنےاپنےگھروںمیں کام کرنے والی تمام آیائوں کو فارغ کرکے خود کام کرنے کی ٹھان لی لیکن بعدازاں انہیں احساس ہوا کہ معمولی تنخواہوںپر گھروں میں کام کرنے والی ان آیائوں کے بغیر کاروبار زندگی چلانا بہت مشکل ہے یہ واقعہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارےبڑے بڑے شہروں میں یہی کلچر چل رہاہے ۔ گھروں میں کام کرنے والی خادمائیں ہمارے گھروں کی ضرورت بن چکی ہیں ۔ ہم خود سرکاری یا پرائیویٹ ملازمت کے دوران بہت ساری مراعات اور اچھی تنخواہوںکے خواہاں ہوتےہیں، کام کی زیادتی پریا کام کے دوران مشکلات پر شکایات یا احتجاج بھی کرتےہیں لیکن معمولی تنخواہ پر کام کرنے والی ان خادمائوں کو تیسرے درجے کا شہری بلکہ اس سے بھی کم تر سمجھتے ہیں جو ہمارے استعمال شدہ برتنوں کو ، ہمارےاستعمال شدہ کپڑوں کو ، ہمارے گھروں میں پھلائی ہوئی گندگی کو صاف اور ہمارے بچوں کی نگہداشت کرتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ کام کرنے والی بعض آیائوںیا خادمائوںکے نخرےیا کچھ عادات ایسی ہوتی ہیں جو آپ کو تنگ کرنے کا موجب بنتی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ہروقت ان کی تضحیک کریں، ان کو انسان کی بجائے جانور سمجھتے ہوئے ان سے کام کرانے کےلیے سخت سے سخت موسمی حالات کی بھی پرواہ نہ کریں۔ لیکن بات اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ ہم انتہائی کم تنخواہ پر معصوم بچوں کو اپنے گھرو ں میں ملازم رکھتے ہیں اور پچھلے کچھ عرصہ سے ایسے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں کہ ان بچوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا گیا کہ یا تووہ موت کی وادی میں اتر گئے یا ان کی حالت ایسی کردی گئی جیسے کسی گھنائونے جرم میں گرفتار کئے گئے ملزمان ہوںاور ان سے سچ اگلوانے کےلیے انہیں سخت اذیت دی گئی ہو ، حکومت صرف ایسا کیس سامنے آنےپرہی کارروائی کرتی نظر نہ آئے بلکہ ان بچوں کے حوالےسے کوئی ایسی پالیسی بنائی جائے کہ اگر اپنے خاندانوں کوپالنے کےلیے ان بچوں کا یوں کا م کرنا ناگزیر ہے تو انہیں خوراک ،کپڑے اور رات گزارنے کےلیے ایسی جگہ ضروری دی جائے جو کم ازکم امراء کے کتوں کو دی جانیوالی رہائش کے برابر ہو۔جو ان خاندانوں کے بچو ںسے کام لیتے ہیں ان کو ضرور پابند کیا جائے کہ ان بچوں کی صحت کا بھی خیال رکھیں اور تشدد کی صورت میں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور ان بچوں کو ہرماہ ایک بارچائلڈ پروٹیکیشن جیسے اداروں میں پیش کیا جائے تاکہ وہ آزادانہ طورپر اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے حوالے سے کھل کر بات کرسکیں ۔ اگر ہم نے یہ سب کچھ نہ کیا تو ہمارے ملک میں برکتو ں کی بجائے خدانخواستہ ایسے حالات رونما ہوتے رہیں گے جو ہمارے روا رکھے جانے والے ظلم کا قدرت کی طرف سے جواب ہوسکتا ہے بار بار یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرگیا تو حکمرانوں کو اسکا بھی جواب دینا ہوگا۔اللہ کرے کے ہما رے حکمراں بظا ہر ان چھو ٹے چھو ٹے لیکن اہم مسا ئل پر بھی تو جہ دیں جو ہما رے معا شرے میں ایک نا سو رکی طرح ہیں۔

تازہ ترین