• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملائیشیا کے موجودہ وزیراعظم نجیب رزاق 2009ء میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے، اُن کی انقلابی اصلاحات کے باعث ملکی معیشت تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہوئی مگر اس تمام عرصے اپوزیشن اُنہیں اور اُن کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتی اور کرپشن کے الزامات لگاتی رہی۔ 2013ء میں نجیب رزاق کی حکومت اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہوئی جب ان کے اکائونٹ میں 700 ملین ڈالر کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ مخالفین نے ان پر الزام لگایا کہ وزیراعظم کے اکائونٹ میں موجود رقم ملائیشین ڈویلپمنٹ فنڈ کے ذریعے کرپشن سے حاصل کی گئی لیکن نجیب رزاق ان الزامات کی تردید کرتے رہے۔ ان انکشافات کے بعد مخالفین نے وزیراعظم کے پاس اتنی بڑی رقم کی موجودگی کے ذرائع بتانے اور مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ ایک موقع پر ایسا لگتا تھا کہ نجیب رزاق کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے مستعفی ہونا پڑے گا مگر صورتحال اس وقت تبدیل ہوگئی جب وزیراعظم نجیب رزاق نے یہ انکشاف کیا کہ ان کے اکائونٹ میں موجود 700 ملین ڈالر کی رقم کرپشن سے نہیں بلکہ سعودی شاہی خاندان کی جانب سے گفٹ کی گئی تھی۔ بعد ازاں تحقیقات سے نجیب رزاق کا موقف درست ثابت ہوا اور گزشتہ سال ملائیشیا کے پراسیکوٹر نے نجیب رزاق کو الزامات سے یہ کہتے ہوئے بری کردیا کہ نجیب رزاق کو دی جانے والی رقم سعودی عرب کے شاہی خاندان کی جانب سے عطیہ تھی جو 2013ء میں منتقل کی گئی تھی۔ اٹارنی جنرل کے مطابق ملائیشیا کی انسداد بدعنوانی ایجنسی کے حکام نے سعودی حکام سے ملاقات کی جنہوں نے گفٹ دینے کی تصدیق کی جسے ان کے مخالفین نے تسلیم کیا اور ملک میں بے یقینی کی صورتحال کا خاتمہ ہوا۔ واضح رہے کہ کچھ اسی طرح کا موقف سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اس وقت اختیار کیا تھا جب اُن کی لندن اور دبئی میں موجود جائیدادوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے برملا یہ اعتراف کیا کہ برطانیہ اور دبئی میں موجود جائیدادوں کی خریداری کیلئے اُنہیں سعودی عرب نے رقم گفٹ کی تھی، اس طرح وہ بھی مزید احتساب سے بچ گئے۔
پاکستان میں آج صورتحال شاید مختلف ہوتی اگر وزیراعظم نواز شریف بھی نجیب رزاق اور جنرل پرویز مشرف کی طرح پاناما لیکس اور جے آئی ٹی کے معاملے میں یہ موقف اختیار کرتے کہ لندن میں موجود اپارٹمنٹس کیلئے رقم انہیں سعودی شاہی خاندان نے گفٹ کی تھی جن سے ان کے فیملی تعلقات ہیں مگر سیف الرحمٰن کے قطری شہزادے کے خط اور قریبی مشیروں کے غلط مشوروں نے وزیراعظم کو مشکلات سے دوچار کردیا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی سعودی گفٹ کی دلیل قابل قبول ہے تو پھر شریف فیملی کیلئے قطری گفٹ کیوں قابل قبول نہیں؟ گزشتہ روز ایک تقریب جس میں پاکستان کے چوٹی کے بزنس مین اور سرمایہ کار موجود تھے، تمام لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ شریف خاندان کی جس طرح اسکروٹنی کی گئی اور انہیں چھلنی سے گزارا گیا، پاکستان کا کوئی بھی بزنس مین اس معیار پر پورا نہیں اترسکتا اور آئین کے آرٹیکل62 اور 63 کی جو تشریح کی گئی ہے، اس پر فرشتے ہی پورے اترسکتے ہیں۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ شریف فیملی کے لندن میں موجود دو اپارٹمنٹس کی خریداری کیلئے رقم غیر بینکنگ چینل سے بھیجی گئی تو کیا صرف شریف فیملی نے ہی ایسا کیا ہوگا؟ میں اپنے گزشتہ کالم میں یہ تحریر کرچکا ہوں کہ اگر سیاستدانوں، بزنس مینوں، جنرلز اور بیورو کریٹس کی بیرون ملک جائیدادوں کی فہرست بنائی جائے تو میرا کالم اُن کے ناموں سے ہی بھرجائے گا۔
یہ حقیقت سب پر واضح ہے کہ ماضی میں پاکستان بالخصوص کراچی میں دہشت گردی کی صورتحال کے باعث پاکستانیوں نے اپنا بڑا سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا۔ میں ایسے سینکڑوں لوگوں کو جانتا ہوں کہ جنہوں نے بھتے، ٹارگٹ کلنگ سے تنگ آکر اپنی فیکٹریاں اور بزنس فروخت کرکے اپنی فیملیوں کو دبئی منتقل کردیا جبکہ سینکڑوں فیملیاں کینیڈا اور دیگر ممالک شفٹ ہوگئیں۔ جتنے بھی پاکستانی بیرون ملک منتقل ہوئے، انہوں نے بیرون ملک جائیدادیں خریدیں،پاکستانیوں نے صرف دبئی میں 6ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ ان تمام پاکستانیوں نے غیر بینکنگ طریقہ اختیار کیا جو پاکستان میں مالیاتی نظام بہتر نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت عام تھا تاہم جب پاکستان بالخصوص کراچی کے حالات میں بہتری آئی تو یہی سرمایہ کار کہتے نظر آئے کہ وہ اپنا سرمایہ وطن واپس لاکر یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں لیکن حکومت اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ اگر وہ اپنا سرمایہ واپس لاتے ہیں تو ان سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس نے بھی وزیراعظم کو یہ مشورہ دیا کہ اگر وزیراعظم ایک جنرل ایمنسٹی کا اعلان کردیتے تو اربوں ڈالر وطن واپس منتقل ہوسکتے تھے جس سے ملک کے تمام مسائل حل ہوجاتے لیکن وزیراعظم اس لئے اس پر عملدرآمد کیلئے تیار نہ تھے کہ ان کے مخالفین الزام لگاتے کہ وزیراعظم یہ سب کچھ اپنے لئے کررہے ہیں، اس طرح ہم نے ایک اچھا موقع گنوادیا۔
وفاقی وزیر سعد رفیق اور دوسرے وزراء کے اس بیان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاناما کیس پاکستان اور حکومت کے خلاف غیر ملکی سازش ہے اور غیر ملکی طاقتیں اس گیم کا حصہ ہیں۔ پاناما لیکس میں چین اور روس سمیت بے شمار ممالک کے سیاستدانوں کے نام آئے مگر بہت سے اہم ممالک نے اس سازش کو ناکام بنادیا جبکہ چھوٹے ملکوں میں یہ سازش کسی حد تک کامیاب ہوگئی۔ جے آئی ٹی کے معاملے میں یو اے ای کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس نے جے آئی ٹی کو کچھ ایسے کاغذات فراہم کئے جسے جے آئی ٹی شریف فیملی کے خلاف استعمال کررہی ہے خاص طور پر دفتر خارجہ کا ایک خط جس میں وزیراعظم دبئی کے حکمراں سے ٹیلیفون پر گفتگو کرنا چاہتے تھے، وہ بھی سوشل میڈیا پر لیک کیا گیا۔یہ بھی ایک تاثر ہے کہ سی پیک اور گوادر پورٹ سے دبئی خوش نہیں۔ شایدانہیں یہ ڈر ہے کہ کہیں گوادر پورٹ جبل علی کا بزنس نہ چھین لے۔ دشمن طاقتیں نواز شریف حکومت کو ان کی اقتصادی ترقی کی وجہ سے اپنے لئے خطرناک سمجھتی ہیں اور ان کو اقتدار سے باہر کرنا غیر ملکی دشمن طاقتوں کا ایجنڈا بن گیا ہے۔ پاکستان میں بھی بعض سیاسی کردار اس سازشی ایجنڈے پر عمل کرکے پاکستان کو اقتصادی ترقی سے محروم کرنے کیلئے وزیراعظم کے خلاف متحرک ہوچکے ہیں۔ سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کے بجائے قومی مفادات کو ترجیح دیں اور ایسے میں جب سی پیک اور دوسرے منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں، ملک میں بے یقینی کی صورتحال پیدا نہ کریں جو دشمنوں کا ایجنڈا ہے اور اس کا نقصان پاکستان کو پہنچے گا۔

تازہ ترین