• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت ہم آپ کو وہ باتیں بتانا چاہتے ہیں جن پر ہمارا دل جلتا ہے۔ وہی دل کا جلنا جس پر مکیش نے گایا تھا کہ ’’دل جلتا ہے تو جلنے دے۔۔آنسو نہ بہا فریاد نہ کر‘‘۔ ہم فریاد تو نہیں کر رہے ہیں کہ فریاد کریں بھی تو کس سے؟ البتہ آنسو ضرور بہا رہے ہیں کہ ہم آنسو ہی بہا سکتے ہیں۔ اور یہ آنسو بہانے کا موقع فراہم کیا ہے روزنامہ جنگ کے ساتھی انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘ کی اس خاص اشاعت نے جس کا عنوان ہے ’’ہندوستان اتنا غصے میں کیوں ہے‘‘۔ اس خاص سیکشن میں پاکستان اور ہندوستان کے ستر سالہ تعلقات اور ستر سالہ تاریخ کو ہندوستان اور پاکستان دونوں کے سیاسی اور سماجی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خاص طور سے اس عرصے میں ہندوستان کے اندر جو سیاسی اور ثقافتی تبدیلیاں ہوئی ہیں ان کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس تجزیے میں زیادہ تر ہندوستان کے سیاسی اور سماجی مبصروں کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ پچھلے کالم میں ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ ان دنوں ہم کینیڈا میں ہیں۔ یہاں ہم نے ’’دی نیوز‘‘ کے انٹرویو اور مضامین پڑھے، اور دونوں ملکوں کی سرحد پر روزانہ ہونے والی جھڑپوں کو بھی یاد کیا۔ اس کے بعد کینیڈا بالخصوص کینیڈا کے سب سے بڑے شہر ٹورنٹو میں دونوں ملکوں کے باشندوں کے باہمی تعلقات پر نظر ڈالی۔ (ہمارا زیادہ وقت اسی شہر میں گزرتا ہے) یہاں تو ایسا نظر آتا ہے جیسے دونوں ملکوں میں کوئی مخاصمت ہی نہیں ہے۔ کم سے کم ہم جن لوگوں کو جانتے ہیں ان میں تو ایک دوسرے کے ساتھ کوئی دشمنی یا کسی قسم کا باہمی اختلاف نظر ہی نہیں آتا۔
دو دن پہلے ہمارے ایک عزیز نے اپنے بیٹے کا عقیقہ کیا۔ یہ عقیقہ کیا تھا اچھی خاصی شادی کی تقریب تھی۔ اس تقریب میں پاکستانی مہمان بھی شریک ہوئے اور ہندوستانی مہمان بھی۔ کھانے کے بعد شام غزل کے نام سے موسیقی کی محفل کا اہتمام کیا گیا تھا۔ وہاں گانے والے کون تھے؟ ہندوستانی۔ گانے والا ہندو اور طبلہ بجانے والا سکھ۔ اور غزلیں ظاہر ہے اردو کی تھیں۔ ہندی میں غزل موجود ہی نہیں ہے بلکہ ہندی میں غزل کے نام پر جو لکھا جاتا ہے وہ بے وزن اور بے تکی شاعری ہوتی ہے۔ اس محفل میں گانے والے نے جو غزلیں گائیں وہ مہدی حسن، غلام علی اور جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی تھیں۔ محفل کا اختتام ہوا نصرت فتح علی خاں کی گائی ہوئی قوالی پر۔ اس قوالی کے آخر میں ’’اللہ ہو، اللہ ہو‘‘ کا ورد کیا جاتا ہے۔ وہاں ہندو اور سکھ مسلمانوں کے ساتھ مل کر اللہ ہو، اللہ ہو کا ورد کر رہے تھے۔ آج کل ’’گئو رکشا‘‘ کے نام پر ہندوستان میں مسلمانوں اور دلت لوگوں کو مارا جا رہا ہے لیکن عقیقے کی اس دعوت میں ہندوستانی مہمانوں نے بھی وہی کھانا کھایا جو مسلمان مہمانوں نے کھایا۔ اور آپ جانتے ہیں کہ ہمارے کھانے گوشت کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتے۔ ہر چیز میں گوشت ہوتا ہے حتیٰ کہ سبزی ترکاری بھی گوشت کے بغیر نہیں ہوتی اور ہندو مہمان وہی کھانے کھا رہے تھے۔ ہماری ایک عزیز خاتون کی بہت ہی گہری دوست ایک ہندو خاتون ہیں۔ وہ ہندو خاتون کہتی ہیں کہ وہ اپنی پاکستانی دوست کے مکان کے سامنے اپنا مکان بنائیں گی۔ اس طرح کہ ان دونوں مکانوں کا لان ایک ہی ہو گا۔ یہ ہندو خاتون آرکیٹیکٹ ہیں۔ یہ جو دونوں ملکوں کے جھگڑے ہیں، وہ سب سیاسی ہیں۔ نریندر مودی نے پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر اقتدار حاصل کیا ہے۔ اس کی پارٹی اور اس کے ساتھیوں نے یہ نفرت اتنی بڑھا دی ہے کہ اس کا بنایا ہوا یو پی کا وزیر اعلیٰ ہندوستان میں موجود مسلمانوں کے آثار قدیمہ کو ہندوستانی ورثہ ماننے سے ہی انکار کر رہا ہے۔ اس صوبے میں آثار قدیمہ کی دیکھ بھال اور ان کے تحفظ کے لئے جو رقم رکھی گئی ہے اس میں تاج محل کا کوئی حصہ نہیں ہے یعنی تاج محل کی دیکھ بھال کے لئے کوئی رقم مخصوص نہیں کی گئی ہے۔ وہاں تاریخ کو اس طرح مسخ کیا جا رہا ہے۔ لیکن.... اور یہ بہت بڑا لیکن ہے.... دونوں ملکوں کے تعلقات میں خرابی پیدا کرنے والے عوامل پر اگر نظر ڈالی جائے تو ان کے نقش قدم ہماری طرف جاتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اب اس سے آگے ہم اور کچھ نہیں کہتے۔
لیکن دل جلانے والی باتیں اور بھی تو ہیں۔ دل جلانے والی بھی اور دل خوش کر نے والی بھی۔ دل خوش کرنے والی بات یہ ہے کہ یہاں اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے لڑکے اور لڑکیاں چھٹیوں میں ریستورانوں اور بڑے بڑے شاپنگ مالز میں کام کرتے ہیں۔ اس طرح یہ بچے پیسہ کما کر اپنے ماں باپ کی مدد کرتے ہیں اور اپنی تعلیم کا خرچہ بھی پورا کرتے ہیں۔ اس کام میں وہ کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ان کے ماں باپ بھی اسے اپنی بے عزتی نہیں سمجھتے۔ اچھے خاصے کھاتے پیتے خاندانوں کے یہ بچے خوشی خوشی یہ کام کرتے ہیں۔ ان کے ماں باپ بھی بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ ان کے بچے فلاں جگہ کام کر رہے ہیں۔ اور یہ پاکستانی خاندان ہیں۔ چند یونیورسٹیاں ایسی بھی ہیں جو اپنے طلبہ کے لئے خود ہی کام تلاش کرتی ہیں۔ اصل میں ہمارا دل یہ سوچ کر جلتا ہے کہ ہمارے اپنے ملک میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ ہمارے ہاں تو اگر کسی تھوڑے سے بھی کھاتے پیتے گھرانے کے بچوں کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ وہ چھٹیوں میں پیسہ کمانے کے لئے کہیں کام کرتے ہیں تو اس گھرانے پر لعن طعن شروع ہو جائے۔ ’’ارے اس کا بیٹا نوکری کرتا ہے‘‘ وہ اپنے بچوں کی پڑھائی کا خرچہ بھی برداشت نہیں کر سکتا‘‘۔ تو صاحب، پاکستان سے باہر نکلنے کے بعد جہاں دل خوش ہوتا ہے وہاں ہمارا دل جلتا بھی بہت ہے۔ اور اکثر آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے۔ اب رہی فریاد، تو ہم کس سے فریاد کریں؟ ہر ایک اپنا اپنا پیٹ اور اپنا اپنا گھر بھرنے میں لگا ہوا ہے۔ لیکن.... ابھی ابھی خیال آیا کہ اگر کھاتے پیتے گھروں کے بچے بھی چھٹیوں میں کام کرنے لگے تو غریبوں کے بچے کہاں جائیں گے؟ یہ بھی بہت ہی ٹیڑھا سوال ہے۔ اس سوال پر بھی ہمارا دل جلتا ہے۔

تازہ ترین