• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سال پندرہ جولائی اواخر ہفتہ لوگ ہمیشہ کی طرح قہوہ خانوں، بارز، سیرو تفریح کے مراکز کا رخ کررہے تھے اور راقم بھی دوستوں کی محفل میں شرکت کی تیاری کررہا تھا کہ ٹیلی فون کالز کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا جس میں باہر نہ جانے بلکہ گھر ہی میں بیٹھنے کی تلقین کی جا رہی تھی کیونکہ حالات ناسازگار ہو گئے تھے۔ استنبول میں فوج نے باسفورس پل پرقبضہ کرلیا تھا فوج کے اس اقدام کو دہشت گردی کی روک تھام کے لئےاٹھائے جانے والے اقدامات قرار دیا جا رہا تھالیکن سوشل میڈیا کچھ اور ہی کہانی پیش کررہا تھا اور ملک میں حکومت کا تختہ الٹ جانے اورفوج کے نظام ِ حکومت سنبھالنے سے آگاہ کیا جا رہا تھا تاہم کسی بھی ٹی وی چینل نے اس وقت تک ملک میں حکومت کا تختہ الٹ جانے کی خبر دینے سے گریز کیا تھا۔ ساڑھے آٹھ بجے کے قریب راقم نے سفیر پاکستان سہیل محمود سے رابطہ قائم کیا اور ان کو ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے فوج کی کارروائی سے آگاہ کیا۔ مختلف ٹی وی چینلز نے رات ساڑھے نو بجے فوج کے ایک گروپ کی جانب سے ملک میں بغاوت کرنےکی خبریں نشر کرنا شروع کردیں۔ اس دوران پاکستان سے جیو نیوز نے راقم سے رابطہ کیا اور اپنی معمول کی نشریات روک کر ترکی میں برپا ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بارے میں لائیو کوریج دینا شروع کردی۔ جیو نیوز پاکستان کا واحد نیوز چینل تھا جو ترکی میں برپاہونے والی ناکام بغاوت کا آنکھوں دیکھا حال پیش کررہا تھا۔ جیو نے بغاوت کے آغاز سے لےکر حکومت کی جانب سے بغاوت ناکام بنانے کے اعلان تک اپنی لائیو نشریات کو جاری رکھا اور راقم کو یہ اعزاز حاصل ہوا اس نے بغیر کسی دبائو کے حقیقت ِ حال کو پاکستانی عوام کے سامنے پیش کیا حالانکہ اس دوران پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز سے ایردوان کے خلاف اور فتح اللہ گولن کے حق میں نشریات بھی پیش کی گئیں اور گولن کے حامیوں کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع بھی فراہم کیا گیا۔ جیو نیوز واحد ٹی وی چینل تھا جس نے ترکی کے مختلف مقامات پر ہونے والی اس بغاوت کی صحیح تصویر کشی کی۔ اس دوران اپنے قارئین کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ راقم کا گھر پارلیمنٹ سے تھوڑی ہی دور واقع ہے اور پیدل پارلیمنٹ تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس رات راقم نے پہلی بار ایف سولہ طیاروں کو اپنے گھر کے اوپر سے اڑتے ہوئے اور بمباری کرتے ہوئے دیکھا لیکن راقم نے اس دوران بھی جیو نیوز کی لائیو کوریج کو بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھا۔
ناکام بغاوت کی رات سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے بعد اب آتے ہیں ٹھیک ایک سال بعد ترکی کے مختلف مقامات پر منعقد ہونے والی اہم تقریبات کی جانب۔ ترکی میںاس ناکام بغاوت اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ اس سلسلے میں کئی ماہ پہلے ہی سے تیاریوں کا آغاز کردیا گیا تھا اور کئی ایک ممالک سے مختلف صحافیوں کو مدعو کیا گیا تھا جن میں پاکستان سے بھی ہمارے چند ایک دوست شامل تھے۔ 15 جولائی ناکام بغاوت اور ڈیموکریسی کے تحفظ کے لئے سب سے اہم اور پہلی تقریب دوپہر ایک بجے ترکی کی قومی اسمبلی میں ہوئی۔ جس میں صدر ایردوان نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر اسپیکرِ اسمبلی اسماعیل قاہرامان نےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ترکی میں بغاوتوں کا دور اب ختم ہو چکا ہے، باغی اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔‘‘ وزیر اعظم بن علی یلدرم نے بھی اس موقع پر کہا کہ ’’دہشت گرد تنظیم فیتو کی ناکام بغاوت کی کوشش، اُس شب لاکھوں کی تعداد میں ترک شہریوں کی جانب سے اپنے پرچم کے تحفظ کے لئے دوسری جنگ نجات کا آغاز ثابت ہوئی ہے۔ دشمن کی قبضے کی کوشش کے ایک قومی داستان بننے کے بعد ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اگر ہم آج یہاں پر دوبارہ یکجا ہو پائے ہیں تو اس کا سہرا ڈھائی سو شہیدوں، دو ہزار 193جیالے غازیوں اور قومی اسمبلی کے سر جاتا ہے۔ ‘‘
رات ٹھیک ساڑھے نو بجے باسفورس پل جسے اس ناکام بغاوت کے بعد ’’15جولائی شہدا پل‘‘ کا نام دیا گیا ہے سب سے بڑی تقریب منعقد ہوئی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ ’’ہماری قوم نے اس رات صرف اپنی قوتِ ایمان سے دنیا کے جدید ترین اسلحے سے لیس باغیوں کو مات دے دی۔نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے ٹینکوں پر چڑھ جانے والی قوم کوبھلا کون اسیر بناسکتا ہے ؟کاش کے اس پل کی زبان ہوتی، اس رات یہاں پر دکھائے جانے والے بہادری کے جوہر آپ کو سنا سکتا۔15 جولائی کی رات اس ہلال کی خاطر غروب ہونے والے ہمارے تمام سورج، تمام شہدا کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔اس رات زخمی ہو کر بھی اپنے زخموں کی پروا نہ کرنے والےتمام انسانوں کاشکر گزار ہوں۔آزادی، اذان، پرچم، وطن مملکت اور اپنے بہتر مستقبل کی خاطر جان دینے والے ہر شخص کا شکر گزار ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ’’15 جولائی کی رات باغیوں کےحملوں کے نتیجےمیں 250افراد شہید ہوئے لیکن ان 250افراد نے 80ملین آبادی والے ترکی کے مستقبل کو بچالیا۔اس رات 2ہزار 194ہمارے بھائی زخمی ہوتے ہوئے غازی بنے اور انہوں نے ہماری قوم کو نئی امید عطا کی۔شہدا اور غازیوں کے عزیزو اقارب کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوئوں کی کوئی قیمت نہیں۔ان کی فدا کاری اور قربانی ہی سے ہم نے آزادی اور جمہوریت کا تحفظ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ترک قوم اور دیگراقوام یا انسانوں کے اجتماع میں یہی فرق پایا جاتا ہے۔‘‘
اس کے بعد صدر ایردوان نے عین اس وقت ترکی کی قومی اسمبلی کے سامنے عوام سے خطاب کیا جب باغیوں نے ترکی کی قومی اسمبلی پر بمباری کی تھی اور قومی اسمبلی کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’15جولائی کو بھی ہم نے طاقتور ریاستوں کی پشت پناہی حاصل ہونے والے غدار ٹولے کے 40سالہ منصوبے کو 20گھنٹوں کے اندر ناکام بناتے ہوئے دوبارہ تاریخ رقم کی ہے۔ترک قوم نے 15جولائی کو فوج کی شکل میں منظم ہونے والے باغی ٹولے کے خلاف ایمان کی طاقت اور نہتے ہاتھوں جنگ کی جس کی دنیا بھر میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔گولیوں کے سامنے سینہ سپر ہونے والی کوئی دوسری قوم موجود نہیں۔موت کو بلا خوف گلے لگانے والی قوم شاید ہی دنیا میں کہیں اور موجود ہو۔ ’’ انہوں نے کہا کہ اسوقت ہمارے سامنے موجود تر ک قومی اسمبلی ہماری خود مختاری اور ڈیموکریسی کی علامت ہے۔اس اسمبلی نے پہلی جنگ نجات کی بذات خود کمان سنبھالی تھی۔ جدید جمہوریہ ترکی کی تاریخ میں کئی ایک بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن کسی نے بھی اس مقدس مقام کی جانب ہاتھ بڑھانے کا سوچا تک نہیں تھا۔یہ غدار کسی اور کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے اور اسی وجہ سے ترک قومی اسمبلی کو سب سے پہلے نشانہ بنایا گیا اور بم برسائے گئےلیکن اراکین پارلیمنٹ نے بموں کی پروا کئے بغیر قومی اسمبلی میں عام اجلاس منعقد کرنے میں کامیابی حاصل کی۔‘‘
یہاں پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ترکی کی پہلی قومی اسمبلی کاافتتاحی اجلاس 23اپریل1920ء کو ممبران اسمبلی اور قوم کی ہمراہی میں دعاؤں، درود شریف اور تکبیر سے ہوا تھا جبکہ 96سال گزرنے کے بعد 15جولائی 2016ء کو قومی اسمبلی کے اراکین نے دعائوں اور تکبیروں کے ساتھ اس قومی اسمبلی کا دفاع کیا۔
15 جولائی2017ء ہی کی رات ترکی کی تاریخ میں پہلی بار ملک کی 90ہزار مساجد میں بیک وقت درود شریف پڑھا گیا۔ اس دوران ترکی کے تمام ہی بڑے بڑے شہروں میں ناکام بغاوت اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے ریلیاں نکالی گئیں۔ ان ریلیوں میں ترک باشندوں نے اپنے ہاتھوں میں ترکی کے قومی پرچم اٹھا رکھے تھے اور جوش وخروش کے ساتھ انہوں نے ترکی میں جمہوریت کے تحفظ کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کا اعادہ کیا۔

تازہ ترین