• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس طرح انسانی لہجہ فقروں اور جملوں کی اہمیت اور اُن کے معنی تبدیل کردیتا ہے بالکل اُسی طرح کئی بار مانگی گئی دُعا توقبول ہو جاتی ہے لیکن اُس کا نتیجہ وہ نہیں ہوتا جو دُعا مانگنے والا چاہتا ہے۔مثال کے طور پر ایک شخص کو اُس کے دوست نے مشورہ دیا کہ تم ہر قرعہ اندازی میں پرائز بانڈز خریدتے ہواِس اُمید پر کہ پہلا یا دوسرا انعام تمہارا نکلے گا لیکن تمہارا انعام نہیں نکلتا، ایسا کرو اِس بار پرائز بانڈ لے کرفلاں دربار پر جاؤ وہاں اُس رات دُعا مانگو کہ جس صبح قرعہ اندازی ہو تو یقیناً پہلا انعام تمہارا ہی نکلے گا، وہ شخص قرعہ اندازی والی رات چالیس ہزار روپے والا پرائز بانڈ لے کر دربار کی سیڑھیوں میں بیٹھ گیا اور ساری رات پنجابی زبان میں یہی دُعا مانگتا رہا کہ ’’بابا جی میرا بانڈ کڈھا دیو ‘‘ بابا جی میرا بانڈ کڈھا دیو‘‘ صبح اُس شخص نے جیب میں ہاتھ مارا تو پتا چلا کہ پرائز بانڈ کوئی جیب تراش نکال کر لے گیا ہے، دُعا مانگنے والا دربار والے بابا جی سے مخاطب ہوا اور بولا ’’بابا جی تسیں دُعا سن لئی اے پر سمجھی نئیں (آپ نے دُعا سن لی لیکن سمجھی نہیں) یعنی دُعا قبول ہوئی مگر نتیجہ دوسرا نکلا۔ اِسی طرح ایک شخص اپنے احباب کو بتا رہا تھا کہ میری والدہ محترمہ مجھے ہمیشہ دعائیں دیتی تھیں اور کہتی تھیں کہ جاؤ بیٹا تمہارے آگے پیچھے کاروں کی لائن ہوا کرے گی، وہ شخص اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا، میری ماں کی دُعا قبول ہو گئی اور آج میرے آگے پیچھے کاروں کی لائن ہوتی ہے کیوں کہ میں ٹیکسی سٹینڈ پر کاروں کو ٹوکن لگاتا ہوں۔ آج کل پاکستان کی سیاسی بساط پر بھی فقروں، جملوں اور دُعاؤں کے معنی یکسر تبدیل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اِس کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ وہ تبدیلی ہے جو آ نہیں رہی بلکہ آ چکی ہے۔ پاناما لیکس اسکینڈل کیس میں وزیر اعظم پاکستان کو نا اہل کرانے کی درخواست پر جس دِن فیصلہ سنایا گیا تھا اُس دِن پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں جماعتیں ہی خوش تھیں کہ ہماری دُعا قبول ہو گئی۔ اِس قبولیت کی مٹھائیاں دونوں اطراف سے تقسیم کی گئیں، ایک فریق کہہ رہا تھا کہ دوسری پارٹی کیس کا فیصلہ اُردو میں پڑھے کیونکہ وہ انگریزی نہیں سمجھتے، کیس ہمارے حق میں ہوا ہے مٹھائیاں ہم تقسیم کریں گے، جبکہ دوسری پارٹی کہہ رہی تھی کہ مٹھائیاں تقسیم کرنا ہمارا حق ہے کیونکہ ہم کیس جیت گئے ہیں۔اگلی صبح تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کو محسوس ہوا کہ اُن کی دُعا قبول تو ہو گئی لیکن معنی تبدیل ہو گئے ہیں اِس لئے انہوں نے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس ااسکینڈل کے حوالے سے ایک جے آئی ٹی بنادی جس نے صاف و شفاف اور ایمانداری سے بھر پور انکوائری رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کر دی۔ جے آئی ٹی نے جو رپورٹ تیار کی اُسے مسلم لیگ ن کی جانب سے من گھڑت اور امتیازی رپورٹ کا نام دیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن والے کہتے ہیں کہ جے آئی ٹی میں ایسے متنازع ممبرز موجودتھے جنہوں نے ہر حال میں مسلم لیگ ن کے خلاف رپورٹ تیار کرنا تھی۔ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم سے ایسے سوالات نہیں کئے گئے جن کے جوابات رپورٹ میں لکھے گئے ہیں۔اِس کشمکش کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ بیرونی قوتوں کے پیدا کردہ ہیں۔سی پیک منصوبے سمیت رُوس، چائنا اور ترکی کی پاکستان سے دوستی شروع ہوتے ہی امریکی اور بھارتی لابی میدان میں آ گئی۔پاکستان نے پہلی بار تعمیر و ترقی کے سفر پر قدم رکھا ہے جسے سبو تاژ کرنے اور قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے بیرونی طاقتوں کے نمائندوں نے بار بار حکومت پاکستان کے سامنے مسائل کھڑے کئے ہیںلہٰذااِن حالات میں ہم وفاقی حکومت کا ساتھ دیں گے۔دوسری جانب تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان فوری استعفیٰ دیں اِسی دھکم پیل میں پیپلز پارٹی نے بھی وزیر اعظم سے استعفے کی مانگ کر دی ہے۔
پاکستانی تھنک ٹینکس کہہ رہے ہیں کہ نااہل ہوئے تو وزیر اعظم کے ساتھ عمران خان بھی ہونگے،کچھ کا کہنا ہے کہ آئندہ الیکشن میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان ہوں گے۔اگر میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں نا اہل ہوئے تو اِس کا سب سے بڑا نقصان تحریک انصاف کو ہوگا کیونکہ تحریک انصاف کے پاس عمران خان کا متبادل نہیں ہے تحریک انصاف میں عمران خان کے بعد جو عہدیداران ہیں وہ دوسری سیاسی جماعتوں سے تشریف لائے ہوئے ہیں جو عمران خان کے نا اہل ہونے کے بعد آپس میں اتفاق و اتحاد قائم نہیں رکھ سکیں گے، جبکہ میاں نواز شریف کے پاس چوہدری نثار، حمزہ شہباز، شہباز شریف، خرم دستگیر بٹ اور دوسرے رشتہ داروں کی شکل میں الیکشن جیتنے اور وزارت عظمیٰ کے حصول کے لئے کئی متبادل چہرے موجود ہیں۔ خیر سپریم کورٹ اب جو فیصلہ سنائے گی وہ فریقین کو ہر حال میں ماننا پڑے گا۔ آج کل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ بہت تیزی سے وائرل ہوا ہے جس میں وزیر مملکت اطلاعات و نشریات کے گرد سر سے پاؤں تک اُن کے بزرگ چھ انڈوں سے صدقہ اُتار رہے ہیں اُن بزرگوں کو کیوں نہیں بتایا گیا کہ انڈے اور اُن انڈوں کی قیمت بہت تھوڑی ہے جبکہ پاناما لیکس اسکینڈل میں ملین ڈالرز کا گھپلا ہے۔ یورپ اور دُنیا بھر کے وہ ممالک جہاں انگلش زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں لفظ ’’گو‘‘ ہمت دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے، انگریز ہمیشہ دوسروں کوحوصلہ دینے کے لئے گو گو پکارتے ہیں۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بار بار ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کو ہمت اورحوصلہ دینے کا سبب اور گو نواز گو بار بارکہنے اور کہلانے والوں کے لئے پچھتاوے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں کس پارٹی کی دُعا اُس کی خواہش کے عین مطابق پوری ہوتی ہے۔
بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
عجیب رسم چلی ہے دُعا نہ مانگے کوئی

تازہ ترین