• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کا یہ انکشاف کہ ملک میں کپڑے کے تیس سے چالیس فی صدکارخانے مکمل طور پر بند ہوچکے ہیں اور صنعت سے وابستہ کم ازکم دس لاکھ افراد بے روزگاری کا شکار ہوگئے ہیں، پوری قوم کے لیے انتہائی تشویشناک اور تمام متعلقہ حکام اور اداروں کی فوری اور سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے اجلاس میں گزشتہ روز اپٹما کے وفد نے اس بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے بجلی اور گیس کے زائد بلوں اور سرچارج کے معاملات اٹھائے جبکہ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین نے وزیر اعظم پیکیج کے مطابق ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مسائل حل نہ ہونے پرتحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ180 ارب کے پیکیج میں سے اس شعبے کے لیے صرف چار ارب روپے رکھے گئے ہیں اور اس میں سے اب تک کوئی بڑی رقم جاری نہیں ہوئی۔ان کے بقول کمیٹی تین برسوں سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مسائل کے حل کے لیے حکومت کو تجاویز دے رہی ہے لیکن ان پر توجہ نہیں دی جارہی جبکہ بیمار صنعتوں کی بحالی کے لیے اسٹیٹ بینک کو جو اقدامات کرنے تھے وہ بھی اب تک عمل میں نہیں آئے۔قومی معیشت کے بحالی کے دعویدارملک کے موجودہ اقتصادی حکمت کاروں کی جانب سے کپڑے کی صنعت کے ساتھ روا رکھی جانے والی یہ بے اعتنائی انتہائی ناقابل فہم ہے بالخصوص اس بناء پر کہ یہ وہ صنعت ہے ملکی برآمدات میں جس کا حصہ 57 فی صد تک رہا ہے اور ملک کی مجموعی لیبر فورس کا کم و بیش نصف عشروں سے اسی شعبے سے وابستہ چلا آرہا ہے۔ اجلاس میں وفاقی وزیر تجارت کی جانب سے صنعت کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اس فیصلے کو کہ وہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مسائل کے حل کے لیے تمام فریقوں سے مشاورت کرکے تجاویز مرتب کرے گی، حکومتی میعاد کے آخری چند مہینوں میں اگرچہ دیر آید درست آید قرار دینا بھی معقول بات نہیں تاہم قومی معیشت کے اس اہم ترین شعبے کی مزید تباہی سے بچانے کے لیے ہر ممکن تدبیر بہرحال اختیار کی جانی چاہئے۔

تازہ ترین