• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیاقت آباد کراچی میں ایک سہ منزلہ عمارت گرنے سے 6افراد جاں بحق اور 15زخمی ہونا بہت بڑا سانحہ ہے جو شہری حکومت کے لیے سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے۔ ابتدائی تحقیق کے مطابق یہ عمار ت نقشہ منظور کرائے بغیر تعمیر کی گئی۔ پولیس اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 35سال پہلے یہاں ایک سنگل سٹوری مکان تھا جسے بعد ازاں مالک نے کمرشل بنیادوں پر پہلے دو اور پھر تین منزلہ بنا دیا۔ عمارت کی تعمیر میں ناقص میٹریل استعمال ہوا۔ پھر اس کی بنیادوں میں سیوریج کا پانی بھی جمع ہوتا رہتا تھا اور کرایہ داروں اور محلے والوں کے توجہ دلانے کے باوجود مالک نے کوئی پروا نہ کی اس نے مکان کے گرائونڈ فلور پر تندور بنا لیا جس کی تپش سے چھت کا سیمنٹ اکھڑتا چلا گیا اور عمارت کمزور ہوتی چلی گئی عمارت گرنے سے ساتھ والے مکان کا بھی ایک حصہ زمین بوس ہو گیا۔ اس عمارت کے گر جانے کے خدشے کے باعث امدادی کام بھی رکا ہوا ہے۔ملک کے اکثر شہروں میں ایسی سیکڑوں کئی کئی منزلہ غیر محفوظ عمارتیں موجود ہیں جو یا تو بہت پرانی اور بوسیدہ ہو چکی ہیں یا نقشے کے بغیر اور ناقص میٹریل سے تعمیر کی گئی ہیں۔ کراچی ہی میں اسی سال فروری میں ایک اور عمارت منہدم ہو جانے سے دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ماہ شہری انتظامیہ350 عمارتوں کے محذوش ہونے کے نوٹس جاری کر چکی ہے ایسی ہی صورت حال بعض دوسرے شہروں میں بھی ہے لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ میں گزشتہ برس ایک عمارت منہدم ہو جانے سے کئی جانوں کا نقصان ہوا ملک بھر میں کمرشل اور رہائشی عمارتوں کی تعمیرات کے لیے قوانین موجود ہیں لیکن اکثر مقامات پر رشوت دے کر ان قوانین کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں ہر شہر کی بلدیہ اور مقامی انتظامیہ کو ایسی مخدوش عمارتوں کا سروے کرا کے انہیں گرا دینا چاہئے یا مرمت کے ذریعے محفوظ بنانا چاہئے نیز بلڈنگز کوڈ پر سختی سے عمل کرانا چاہئے تاکہ اس نوعیت کے حادثات روکے جا سکیں۔

تازہ ترین