• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارادہ توتھا پانامہ کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ پر سپریم کورٹ کی ابتدائی سماعت کے حوالے سے کچھ لکھنے کا ۔لیکن خبر ملی کہ اداکارمارٹن لینڈو دنیا میں نہیں رہے۔ پھریاد آیا کہ جب مئی میں سر راجر مورکے بارے میں یہی اطلاع آئی تھی میں پاکستانی اقلیتوں پر ایک مضمون لکھ رہا تھا۔ اگرچہ راجر مور سے میرے بچپن کی خوبصورت یادوں کا رشتہ کچھ اٹوٹ ساہے لیکن میں اِن پر کچھ نہیں لکھ پایا!
سچ یہ ہے کہ مارٹن لینڈو سے متعلق میری کبھی کوئی پسندیدگی یا وابستگی نہیں رہی۔ بلکہ مجھے اِن کا چہرہ یاد کرنے کے لئے گوگل دیکھنا پڑا۔ البتہ تصویر دیکھتے ہی ذہن کے پردے پر خود بخود اپنے دور کی مشہور ٹی وی سیریز ’مشن : اِمپوسبل‘ (Mission: Impossible) چلناشروع ہوگئی۔ یہاں مقصد مارٹن لینڈویاسر راجر مور پر مقالہ لکھنا نہیں بلکہ اُس دور کی یادیں تازہ کرنا ہے جب یہاں ہر شے خوبصورت دکھائی دیتی تھی۔
ہوش سنبھالتے ہی جن لطیف عناصر کا تجربہ ہوا اِن میں انگریزی شوز بھی شامل ہیں۔ گھر میں ٹی وی پر یو ایف او (U.F.O)، ایوینجرز (Avengers)، دا مین فرام انکل (The Man From U.N.C.L.E) ، آئرن سائڈ (Ironside)، ڈینجر مین (Danger Man) ، دا پَر سوئڈرز (The Persuaders) ، دا سینٹ (The Saint) ، اسٹار ٹریک (Star Trek) لوسی شو (Lucy Show)، پیٹی کوٹ جنکشن (Petticoat Junction) اور ’مشن : اِمپوسبل‘ (Mission: Impossible) جیسی ٹی وی سیریز دیکھنا اَب کوئی سہانہ خواب لگتا ہے۔
اِسی زمانے میں ’کر ن کہانی،‘ ’خدا کی بستی، ‘ ’انکل عرفی،‘ اور ’ شہزوری ‘ جیسے اعلیٰ معیار کے اردو سیریل بھی پیش کئے گئے۔ یہ بات بھلائے نہیں بھولتی کہ اسکول میں اِن انگریزی شو زاوراردو کھیلوں کا ذکر معمول تھا؛ اِن سے وابستہ خاص یادوں میں راجر موراور ٹونی کرٹس کا ’پر سوئیڈرز‘ میں امریکی اور برطانوی لہجوں پر جھگڑاکرنا، اسٹار ٹریک میںمسٹر اسپاک یعنی لینرڈ نموئے(Leanord Nimoy) کا کیپٹن کرک یعنی ولیم شیٹ نر (William Shatner) کے ساتھ تحلیل ہوکر کسی دوسر ے مقام پر پہنچ جانااور لوسی شو میںلوسلی بال کی گرج دار آوازآج بھی نا قابل فراموش ہیں۔ سیریل ’شہزوری ‘ میں نیلوفر عباسی کا ڈائیلاگ ، ’میں بہت بری آدمی ہوں ، ‘ برسوں مقبول رہا۔ اَنگریز ٹیم آئی تو ٹونی گریک کو دیکھتے ہی فرض کرلیا کہ ہو نہ ہو یہ راجر مور کا بھائی ہے۔ مزے دار بات یہ کہ سیریز کے ایک ٹیسٹ میں ڈینس ایمس، ماجد خان اور مشتاق محمد تینوں کے تینوں 99رنز کے انفرادی اسکو رپر آئوٹ ہوگئے اور پھراخبار ِ جنگ میں چھپنے والے کریم کے اشتہار میں ڈینس ایمس کی تصویر بھی یاد ہے۔
یہ وحید مراد کے نا قابل تسخیرسحر کا دور تھا۔اتنا طاقتور سحر کہ ہالی وڈ کا تجربہ رکھنے والے ضیا محی الدین بھی فلم ’مجرم کون ‘ میں اِس کی لپیٹ میں آتے دکھائی دئیے۔ فلمسٹار ندیم مشرقی پاکستان کاغم بھلا رہے تھے اور نئے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ہرغریب کی آنکھ کا تارا کہلائے جارہے تھے۔
یہ ایک نا قابل فراموش زمانہ تھا۔ شہر گنجان نہیں تھا ؛ چلنے کے لئے فٹ پاتھ میسر تھی۔ جگہ جگہ سرخ لیٹر بکس نصب تھے ؛ بس کنڈکٹر ز وردی پہنا کرتے اور ٹکٹ دیا کرتے تھے۔ کرسچن مشن والے سانولے دیسی اور سفید فا م یورپی محلّوں میں بے خوف بائبل لئے گھومتے تھے۔ سینما گھروں کی کمی نہیں تھی؛ ایک وقت تھا کہ کراچی میںایسے تین سینما تھے جہاں فلم دیکھنے کے لئے کار سے اترنے کی ضرورت نہیںتھی۔ اسکولوں اور کالجوں میں صرف پڑھائی ہوا کرتی تھی۔ ظہیر عباس ایک مایہ ناز بیٹسمین کے طور پر ابھر رہے تھے اورہاکی ٹیم میونخ اولمپکس میں نا قابل یقین شکست کے بعدمانٹریال کی تیاری کررہی تھی۔ اور ہا ں، علی الصبح اُٹھ کر محمد علی کلے کے ہاتھوں اِسموکن جو (جو فریزیئر) کی’ تھریلا اِن منیلا ‘ نامی تاریخی مقابلے میں شکست بھی یادہے۔
ٹیلیوژن کا تصوربلاشبہ صرف پی ٹی وی سے وابستہ تھا۔ عجیب بات یہ کہ پیر کے د ن نشریات کی چھٹی ہوتی تھی، کراچی سینٹر چینل نمبر چار پر دکھائی دیتا تھا، نشریات شام پانچ بجے شروع ہوتیں اور لگ بھگ آدھی رات کے وقت قومی ترانے پرختم ہوجاتیں۔ اس میں شک نہیں کہ اُس دور میں ٹی وی دیکھنے سے وہ کچھ ملاجو بعد میں بہت سے تجربات سے گزرنے کے باوجود حاصل نہ ہوسکا۔ سال 2009 میں امریکی شہر ڈیٹر و ئٹ کے ایک اسٹور کے فلم سیکشن میں کھڑا ایک بچہ اپنے ماں باپ سے ریک میں سجے امریکی کلاسکس کے ڈی وی ڈیز سے متعلق سوال کئے جارہا تھا۔ میں نے مداخلت کرکے بچے کی مدد کردی تو اِسٹور کا ایک سِکھ ملازم سمجھا کہ میرا بچپن امریکہ میں گزرا ہے۔ سردار جی کو کیا معلوم کہ میں نے بچپن میں سرکاری ٹی وی کتنے غور سے دیکھا تھا!
اگلے دور میں پلانِٹ آف دی ایپس (Planet of The Apes)، سکس ملین ڈالر مین(Six Million Dollar Man)، بائیانک وومن(Bionic Woman) ، پیٹروچلی (Petrocelli)، کولمبو (Columbo) اور اسٹارسکی اینڈ ہَچ (Starsky and Hutch) جیسی سیریز نوجوانوں میں مقبول تھیں ۔ پاپ سنگر عالم گیر کا طوطی بول رہا تھا اور محمد علی شہکی منظر عام پر آیا ہی چاہتے تھے۔ سپر اسٹار بابرہ شریف پہلی بار ٹی وی کمرشل میں جلوہ گر ہوئیں ؛ یہ وہی وقت ہے جب ہم نارتھ ناظم آباد میں گھر کی بالکونی سے قریبی پہاڑ پر لکھے ایک اشتہار کو روز دیکھاکرتے تھے۔ یہ جاوید جبار کی فلم’ مسافر‘ کے انگریزی ورژن 'Beyond The Last Mountain'کا اشتہار تھا۔ پہاڑ پر میلوں لمبی یہ انگریزی عبارت تحریر کرناہمارے لئے اُس وقت بھی حیرت کی بات تھی اور آج بھی ہے۔ پہلے کرکٹ ورلڈ کپ کاا نعقاد بھی اس دور کی اہم پیش رفت ہے۔ جاوید میاںداد نے اسی ٹورنامنٹ سے کیرئیرکا آغاز کیا! عجیب بات یہ کہ ٹی وی اینکر پی جے میر نے اس ٹورنامنٹ کے ایک میچ میں ویوین رچرڈز کو آئوٹ کردیا تھا۔
سال 1976میں مانٹریال اولمپکس کے دوران رومانیہ کی جمناسٹ نادیہ کومانیچی اور اِن کے پرفیکٹ ٹین (Perfect Ten) نے دنیا بھر میں ایسی دھوم مچائی کہ جب میں کوئی تینتیس برس بعدمانٹریال پہنچا تو خاص طور پر اولمپک اسٹیڈیم جاکر پرانے ریکارڈ ز چھیڑنے لگا۔ ایک مہربان اِسٹافرنے مجھے وہ مقامات دکھائے جہاں نادیہ نے برسوں پہلے پرفارم کیا تھا۔ وہ لمحات اور وہ کیفیت بھلانا نا ممکن ہے! نوجوانوں پر نادیہ کا جادو اُس وقت ٹوٹا جب انہوں نے بائیو نک وومن کی جیمی سومر زکو پہلی بار ٹی وی پر دیکھا۔اِس کردار کو نبھانے والی اداکارہ لنڈسے ویگنرآج بھی بے مثال ہیں۔ پاکستانی فلموں میں سلو موشن کی روایت سکس ملین ڈالرمین اور بائیونک وومن جیسے شوزکے اثرات کا نتیجہ تھی ۔ نذرالاسلام جیسے ہدایت کار فلم ‘نہیں ابھی نہیں‘ میں اِن شوز کے چند مناظرسے استعفادہ کرچکے ہیں۔
انیس سو اسّی کی دہائی میں بھی بہت سے مشہور برطانوی، امریکی ، آسٹریلوی اور کینیڈین ٹی وی شوز پیش کئے گئے لیکن تب تک ہمارا بچپن ماضی بن چکا تھا۔ اگرچہ سر راجر مور اور مارٹن لینڈو کا دنیا سے چلے جانا اِن سنہری یادوں کو دہرانے کابہانہ ثابت ہوا لیکن اَب اِن یادوں کو پھر سے سمیٹنا میرے لئے مشکل ہورہا ہے۔ اس لمحے ذہن میں صرف یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ ایسی خوبصورت یادیں کب تک کسی کا ساتھ دے سکتی ہیں۔اَب صرف یہی دعا ہے کہ اَگر مزیدزندگی لکھی ہے توخدا اِن یادوں سے جڑا اِحساس بھی ہمیشہ قائم رکھے۔

تازہ ترین