• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھلے دنیا پاکستانیوں کے بارے میں جو رائے قائم کرے مگر ہم ویسے نہیں جیسے ہمیں پورٹریٹ کیا جاتا ہے۔ ہم جمہوریت نواز ہیں۔ ہم نے ضیاء الحق جیسے آمر کے کوڑے سہے مگر جمہوریت کو خیر باد نہیں کہا۔ ہم نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر تحریر و تقریر کی آزادی گروی نہ رکھی، ہم نے طاقتوروں کا جبر سہا مگر ظلم سے سمجھوتہ کرنا نہ سیکھا، ہم نے نامہربان ہوائوں کے تھپیڑے کھائے مگر دیے کی لو کم نہ ہونے دی، ہم نے جابروں کے طے کردہ معیار کی بجائے آفاقی قدروں کی پاسبانی کی اس لئے کہ جمہوریت اور آزادی سے محبت ہماری سرشت میں ہے اور دن بدن جمہوری فکر غیر محسوس طریقے سے ہمارے مزاج میں رچتی بستی جا رہی ہے۔ جمہوریت کے تسلسل نے لوگوں کو اظہارِ رائے کی طرف راغب کیا ہے، ان کے دلوں سے ظلم کا خوف دور کر کے انہیں سوچنے، پرکھنے اور سوال کرنے کی اہلیت بخشی ہے۔ شاید اسی لئے کچھ شعبے اور شخصیات جو ہمیشہ سے ہر قسم کے سوالات سے مستثنیٰ سمجھے جاتے رہے ہیں بھی تشکیک کے دائرے میں آچکے ہیں۔ لوگ ان کی حرکات و سکنات اور قول و فعل کے بارے میں کھلے عام بلا خوف و خطر گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ کہ اب وہ موازنے کے ذریعے سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کی کارکردگی کا تعین کرتے ہیں۔ ملکی سلامتی کی پالیسیوں اور قومی مفادات کے منصوبوں کی چھان بین کرنا بھی انہیں خوب آگیا ہے۔ اس میں بہت ہاتھ میڈیا اور سوشل میڈیا کا بھی ہے جس کے ذریعے بہت سی خفیہ اور ممنوع معلومات بھی سامنے آ جاتی ہیں اور لوگوں پر صحیح غلط سب واضح ہو جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت جب ملک میں پانامہ لیکس کو لے کر ایک ہنگامی (ذہنی اور جذباتی طور پر) صورت حال پیدا ہو چکی ہے تو ہر لمحے کے ساتھ لوگوں کا شعور بیدار اور پختہ ہو رہا ہے۔ وہ مایوس ہونے کی بجائے باخبر ہو کر معاملات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں کیوں کہ اب وہ ہوا میں پھیلائی گئی افواہوں پر کان دھرنے کی بجائے کھلی آنکھوں معاملات کا جائزہ لے کر رائے قائم کرنے کا فن سیکھ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بغاوت پر اُکسانے والی مختلف طاقتیں انہیں حکومت کے خلاف صف آراء ہونے پر تیار نہیں کر سکیں اس لئے کہ وہ حکومت کے خلاف عمل کو ملک کے خلاف سازش سے تعبیر کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے جب بیچ رستے منصوبے روک دیئے جائیں، جب پالیسی سازوں کی توجہ تعمیری کاموں کی بجائے لایعنی سوال و جواب میں اُلجھا دی جائے تو نقصان ملک اور ملک کے عوام کا ہوتا ہے۔ کسی بھی کم پڑھے لکھے شخص سے پوچھیں اگر وہ کسی جماعت کا جیالا نہ ہو تو وہ صاف کہے گا کہ حکومت کے خلاف بیانات دینے والوں کا مقصد عوام کی فلاح نہیں بلکہ اقتدار حاصل کرنا ہے۔ ان میں کچھ ایسے رہنما بھی ہیں جن کے پاس حکومت بنانے کا کوئی خاکہ نہیں، بدلتے حالات میں ملکی ترقی کے بارے میں کوئی وژن نہیں۔ وہ صرف خواہش کی تکمیل میں ہر شے اُلٹ پلٹ کر دینا چاہتے ہیں، اپنے خواب کو سچ کرنے کے لئے وہ وقتاً فوقتاً شیروانی ضرور سِلوا لیتے ہیں مگر مطلوبہ معلومات اور سیاسی شعور حاصل نہیں کر سکتے کیوں کہ شعور سیکھنے اور مانگنے سے نہیں ملتا یہ ودیعت کیا جاتا ہے۔ بہرحال ملکی فضا پر بے یقینی کے گہرے ہوتے سائے سوالات کی شکل دھارتے جا رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ عوام کو اس کشمکش کی صورت حال سے نکال کر ملک کی ترقی پر توجہ دی جائے۔ الیکشن کا دور زیادہ دور نہیں۔ جہاں اتنا انتظار کر لیا کچھ اور سہی کیوں کہ اب تو مہینے باقی ہیں۔ بات صرف ملک کی چار دیواری تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر ہونے والی سازشوں کے کردار بھی کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔ بڑی طاقتوں نے کس طرح اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے مسلم ممالک کے قدرتی وسائل کو قبضے میں لے کر ان کی انا کو مجروح کیا اور انہیں نیم غلام بنایا یہ سب پر عیاں ہے۔ اس وقت پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت، معیشت، دفاع اور سی پیک کی وجہ سے بہت سے بڑوں کی آنکھ میں کھٹکتا ہے۔ چین سے اس کے مراسم بھی علاقے اور عالمی قوتوں کو منظور نہیں کیوں کہ اس طرح پاکستان ترقی یافتہ اور خود مختار ملک بن جائے گا۔ انہیں پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی سے اتنی چِڑ نہیں جتنی خود مختاری سے ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر اس طرح کب تک چلے گا۔ ہمیں اپنی مرضی سے اپنے حق میں فیصلہ کرنے کی اجازت لینے کی بجائے عمل کر کے دکھانا ہے کہ 1947ء میں جو ملک برطانیہ اور ہندوستان کے قبضے سے آزاد ہوا تھا وہ آج کسی اور آقا کے تابع نہیں بلکہ اس کی پالیسیاں اس کی قومی امنگوں کی آئینہ دار ہیں۔ یہ طے ہے کہ اس ملک کی بقا اور ترقی جمہوریت میں مضمر ہے۔ ہم نے کئی نظام آزما لئے۔ کبھی قرآن کو ضامن بنا کر ریفرنڈم کئے، کبھی مجلس شوریٰ بنائی، کبھی بی ڈی ممبری آزمائی، کبھی غیر جماعتی انتخابات اور ضلعی حکومت کا نظام قائم کیا۔ صدارتی نظام دیکھا مگر عوام کو سکھ کا سانس اور ملک کو معتبر درجہ صرف جمہوری نظام نے ہی عطا کیا۔ پھر اس دھرتی کے لوگ کسی فرد کی غلامی قبول نہیں کرتے۔ وہ نظام کے ساتھ چلنا پسند کرتے ہیں۔ جمہوریت ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جس میں سب شریک ہوتے ہیں۔ گزشتہ چار سالوں نے جمہوریت کے ثمرات پوری دنیا پر واضح کئے ہیں۔ حکمران جماعت کوئی بھی ہو تسلسل اہمیت رکھتا ہے سو موجودہ غیر یقینی صورت حال میں جہاں معتبر اور معزز سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کی محتاج نہیں انتظار کیا جائے اس فیصلے کا جو پوری قوم کو مطمئن کر سکے کیوں کہ اس وقت جو سوال فضا میں گردش کر رہا ہے وہ یہی ہے کہ پاکستان میں احتساب انتقامی نوعیت کا ہی کیوں ہوتا ہے۔ باقی آف شور کمپنیوں والے سینکڑوں لوگوں کے کیسز بھی کھولے جائیں۔ وہ سیاست دان جن کے ہر ملک اور شہر میں محل ہیں کو بھی عدالت کے دائرے میں لایا جائے۔ آمدن اور اخراجات نیز طرزِ زندگی کے فرق والا فارمولا تمام رہنمائوں اور اعلیٰ عہدیداروں پر لاگو کیا جائے۔ پھر تو کسی کو کوئی شکوہ نہیں ہو گا۔ سب کے لئے انصاف کا ترازو ایک ہونا چاہئے۔
ایسے میں فارغ البال ناقدوں نے پنجاب جس پر سب کا تکیہ ہے کے انتھک وزیر اعلیٰ کی خامیاں ڈھونڈنے کے لئے خصوصی ٹیم ترتیب دے دی ہے۔ کہتے ہیں جو کام کرتا ہے وہ غلطیاں بھی کرتا ہے کیوں کہ تنقید کرنے والے کام وغیرہ کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے اس لئے ان کے نامۂ اعمال میں خطائیں بھی کم ہوں گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب چونکہ انسان ہیں اور حزبِ مخالف کے رہنمائوں کی طرح فرشتے ہر گز نہیں اس لئے انسان ہونے کے ناطے خطائیں تو سرزد ہوتی رہتی ہیں مگر شفافیت اور میرٹ کو جس طرح انہوں نے صوبے میں رائج کیا ہے اس کی مثال کسی اور صوبے میں ناپید ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کے ذہن، آنکھوں اور فضا میں پھیلے سوالات کو محسوس کیا جائے اور ایک ایسا طریقہ وضع کیا جائے جس میں محمود و ایاز کی تخصیص باقی نہ رہے۔

تازہ ترین