• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا کے دورے کے موقع پر یہ کہنا، کہ ملکی دفاع کو مضبوط بنانے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت نہ صرف اس کی بقا کے ناگزیر عنصر کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ پورے خطے میں مستحکم امن کی ضرورت ہے۔ پاکستان آج دفاعی صلاحیت کے اعتبار سے جس مقام پر کھڑا ہے اس کے لئے ہمارے فوجی افسروں اور جوانوں نے بے مثال مشقت کی ہے۔ ہمارے انجینئروں نے اپنی تخلیقی و عملی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے اور پاکستانی عوام نے اپنی فوج کی پشت پر کھڑے ہوکہ ملکی بقا اور سلامتی کی ضروریات پوری کرنےکو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے۔ من حیث القوم پاکستان کے تمام حلقوں کی مذکورہ سوچ کا مظہر وہ حالات ہیں جن میں برٹش انڈیا سے غیرملکی استعمار کی واپسی کی مشترکہ جدوجہد کے آخری مرحلے پر برصغیر جنوبی ایشیا میں بسنے والی دو قوموں میں سے ایک کو دوسری قوم کے جارحانہ رویے کے باعث اپنے لئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کرنا پڑا۔ جب ایک قوم کی طرف سے دوسری قوم کو مساویانہ حقوق دینے کی بجائے اچھوت اور کمتر درجے کا حامل قرار دینے کے عزائم سامنے آرہے تھے تو برصغیر کے مسلمانوں اور ان کی قیادت کے لئے واحد راستہ یہی بچا تھا کہ وہ اپنے لئے جداگانہ وطن کا مطالبہ کرتے اور انہوں نے پاکستان کی صورت میں وہ وطن حاصل کر بھی لیا۔ اگست 1947میں برٹش انڈیا سے غیرملکی استعمار کی رخصتی اور دو مملکتوں کے قیام سے قبل ہی مسلمانوں کے قتل عام کی صورت میں جارحیت کا جو سلسلہ شروع ہوا اور پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاستوں پر فوجی مداخلت کے ذریعے قبضہ کرنے کا جو عمل نئی دہلی کے حکمرانوں نے شروع کیا، وہ پاکستان کے فطری حصے کشمیر میں بھارتی فوج کے اتارے جانے اور کئی جنگوں کی صورت میں جاری رہا جس میں جنوبی پاکستان (ریاست حیدرآباد دکن) اور مشرقی پاکستان (آج کے بنگلہ دیش) کا سقوط بھی شامل ہے۔ بھارت کی تمام تر فوجی تیاریوں، سفارتی سرگرمیوں، معاشی اقدامات، یہاں تک کہ کھیلوں کی سیاست کا محور پاکستان کو نقصان پہنچانا رہا ہے۔ وطن عزیز کو اپنی بقا کے لئے ہتھیاروں کی اس دوڑ کا حصہ بننا پڑا جو بھارت نے پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے مذموم عزائم کے ساتھ شروع کی۔ یہاں تک کہ بھارت کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرکے یہ واضح کردیا کہ اب کوئی بھی مہم جوئی بھارت کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔ اس کے باوجود بھارت میں کبھی کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کے تحت مختصر مدت کی تیز رفتار جنگوں کی مشقوں کا سلسلہ نظر آتا ہے، کبھی نئی دہلی کی طرف سے خطے میں امن و ترقی کی فضا کو مسموم کرنے کے لئے سرحدی اشتعال انگیزی کی جاتی ہے، کبھی بھارتی طالع آزما پاکستان کو اندر سے نقصان پہنچانے کے لئے کلبھوشن یادیو جیسے حاضر سروس نیوی افسروں کی صورت میں دہشت گردی کے نیٹ ورک قائم کرتے ہیں اور کبھی طالبان کی ناکامی کے بعد داعش کو پاکستان میں داخل کرنے کے عزائم کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور روس سمیت مختلف ملکوں سے اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کی مسلسل خریداری کو کشمیر کی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر آئے روز کی جانے والی اشتعال انگیزیوں، بھارتی آبدوزوں کی پراسرار نقل و حرکت، افغانستان کے راستے سے دراندازی کی کوششوں اور مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز کی فوجی کارروائیوں کے ساتھ ملاکر دیکھا جائے تو بہت کچھ واضح ہوجاتا ہے۔ پاکستان کی دفاعی صلاحیت اور فوج کی مستعدی وہ اثاثہ ہے جس نے غیرملکی ایجنٹوں اور دہشت گردوں کے غیر معمولی نیٹ ورک کا صفایا کرنے کی مہم کو آخری مرحلوں تک لے جاکر دنیا کو حیران کردیا ہے۔ سال 1947سے 19جولائی کو یوم الحاق پاکستان منانے والے کشمیریوں نے فخر کے ساتھ یہ محسوس کیا ہوگا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جس ملک سے الحاق کے خواہاں ہیں وہ بھرپور دفاعی صلاحیت کا حامل ہے۔ پاکستان کی اس صلاحیت سے پیدا ہونے والا توازن پورے جنوبی ایشیا کے امن کی کلید ہے۔

تازہ ترین