• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے ناسور کا شکار ہے۔ افواج پاکستان اور دیگر سیکورٹی ادارے وطن عزیز کو دہشت گرد اور انتہا پسند عناصر سے پاک کرنے کیلئے مسلسل مصروفِ عمل ہیں اور اب تک ستر ہزار قیمتی جانیں دہشت گردی کی بھینٹ چڑ ھ چکی ہیں جبکہ ایک کھرب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ اِس کے باوجود بدھ کے روز امریکی محکمہ خارجہ نے اپنی سالانہ ’’کنٹری رپورٹ آن ٹیررازم 2016ء‘‘ میں پاکستان کو اُن ممالک کی فہرست میں رکھا ہے جہاں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں۔ دیگر ممالک میں افغانستان، شام، عراق، کولمبیا، صومالیہ، فلپائن اور مصر شامل ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ پاک فوج بلاامتیاز تمام دہشت گرد گروپوں کے خاتمے کیلئے برسر پیکار ہے اور پاکستان واضح کر چکا ہے کہ افغان طالبان کی طرح حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانے بھی افغانستان کے اندر ہیں پاکستان میں ان کا کوئی وجود نہیں۔ اس کے برخلاف پاکستانی طالبان کو افغان حکمرانوں نے اپنی سرزمین پر پناہ دے رکھی ہے جو وہاں سے آ کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ خیبر ایجنسی کی وادی راجگال میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن ’’خیبر فور‘‘ کو مزید سود مند بنانے کیلئے افغان حکام اور دیگر اتحادی افواج سے معلومات شیئر کی گئی تھیں لیکن افغان وزیر دفاع نے اس کا خیر مقدم کرنے کی بجائے الٹا پاکستان پر الزام تراشی کی۔ ترجمان پاک فوج نے اِن الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ الزام تراشی خطے میں کام کرنے والی دشمن قوتوں کا پرانا ایجنڈا ہے۔ افواج پاکستان نے دونوں ممالک کے مابین بارڈر مینجمنٹ کیلئے باڑ لگانا بھی شروع کر دی ہے مگر افغانستان کی طرف سے کسی تعاون کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔ افغانستان کو ادراک ہونا چاہئے کہ اُس کا امن پاکستان کے امن و امان سے مشروط ہے لہٰذا اُسے پاکستان پر دبائو ڈالنے کی روش ترک کرتے ہوئے خطے میں امن وامان کیلئے مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ اقدامات پر توجہ دینا ہو گی۔

تازہ ترین