• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک نیا قطری تعویذ (خط) سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا ہے۔ سوا سالہ پڑھائی کے بعد تیار کیا گیا یہ قطری تعویذ تیربہدف نسخے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ میڈیا کو اس کی کرامات سے ایک روز پہلےہی آگاہ کردیا گیا تھا۔ اس کارروائی پر سپریم کورٹ برہم ہوئی۔ انہوں نے تعویذ لانے والے راجہ صاحب سے کافی پوچھ گچھ کی مگر راجہ صاحب نے خود کو بے قصور کہا۔ پوری قوم حیران ہے کہ آخر یہ خط پہلے کہا ںتھا؟ یہ چٹھی اب کیوں آئی ہے؟ خیر اس پر بحث جاری ہے۔ ویسے وکیل بھی کمال کے لوگ ہوتے ہیں۔جب پاناما پیپرز سامنے آئے تھے تو سلمان اکرم راجہ ٹی وی پروگراموں میں کچھ اور کہا کرتے تھے۔ یہ کچھ اور وہ ہے جو سلمان اکرم راجہ کے آج کےموقف سے یکسر مختلف تھا۔ آج کل صبح ہی سے ٹی وی دیکھنا پڑتا ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے باہر رکھےگئے ڈائس پر حاضریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ حاضری کے معاملے میں شیخ رشید جیسا کوئی طالب علم نہیں ہے۔
جب تک شیری رحمٰن میدان میں نہیں اتری تھیں پیپلزپارٹی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا۔ اب کہا جاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی بھی اس معاملے میں سنجیدہ ہے۔ جمعرات کے دن سینیٹر شیری رحمٰن اپنی پارٹی کے کچھ لوگوں کے ساتھ سپریم کورٹ آئیں، ان کچھ لوگوں میں قمر زمان کائرہ بھی شامل تھے۔ شیری رحمٰن نے قطری وزیرخارجہ کی اچانک آمد اور پھر نئے خط کی کہانی پر سوالات اٹھائے۔ شیری رحمٰن کا شمار پیپلزپارٹی کے سمجھدار لوگوں میں ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے باہر شیری رحمٰن نے وزیراعظم کی سیالکوٹ میں کی گئی تقریر پر بھی تنقید کی۔ شیری رحمٰن نے کہا کہ..... ’’جنرل ضیا نے ایک روپے کے عوض اتفاق فائونڈری واپس کردی تھی۔ میاں نواز شریف قوم کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ضیاء الحق نے انہیں اس وقت کروڑوں روپے دیئے تھے۔ وہ یہ بھی بتائیں کہ اگر شریف فیملی کو کاروباری نقصان ہورہا تھا تو پھر بیرون ملک جائیدادیں کیسے بن گئیں؟ خسارے سے تو جائیدادیں نہیں بنتیں۔ 90ء سے99ء تک نواز شریف کی کرپشن کے راز فاش ہوچکے ہیں۔ پاکستان کو بحران سے نکالنے اور احتساب کے عمل کویقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عدالت اور ملک کو مینابازار کہہ رہےہیں جو بہت افسوسناک ہے اگر ان کو یہ تماشا لگ رہا ہے تو اس تماشے کا ذمہ دار شریف خاندان ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ منی ٹریل دے کر آپ اس تماشے کو ختم کردیں۔ آپ منی ٹریل کیوں نہیں دیتے؟ جے آئی ٹی کو حکومت خود متنازع کر رہی ہے۔ کورٹ کے باہر جے آئی ٹی پر حکومت خود سیاست کر رہی ہے۔ چند روز پہلے ن لیگ والے شہید بھٹو اور بی بی شہید سے موازنہ کر رہے تھے، شہید بھٹو کا عدالتی قتل ہوا، انہوں نے ڈکٹیٹر سے کوئی ڈیل نہیں کی۔ سیاسی مقدمات بنا کر بی بی شہید کو ہر چھوٹی بڑی عدالت میں بلایا گیا۔ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل کیا۔ مگر یاد رکھئے کہ آپ سیاسی انتقام کا سامنا نہیں کر رہے بلکہ احتساب کا سامنا کر رہے ہیں۔ ملکی صنعت اور تجارت کو بہتر کرنے کے دعویدار بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کا جواب دیں۔ شریف خاندان کے اپنے کاروبار کے علاوہ تمام صنعت اور تجارت خسارے میں ہے۔ پچھلے چار سال میں بیرونی تجارتی خسارہ 99ارب ڈالرز ہو گیا ہے۔ پھر بھی وزیراعظم صنعت اور تجارت کو آسمان کی بلندی پر لے جانے کے دعوے کررہے ہیں۔ شاید ان کے مشیر انہیں اصل حقائق سے آگاہ نہیں کرتے۔ ملک اندھیروں میں ڈوب رہا ہے اور وزیراعظم اندھیرے ختم کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ ابھی بھی ملک کے دیہی علاقوں میں 16سے 18گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ حکومت ان منصوبوں کا افتتاح کر رہی ہے جو پیپلزپارٹی کے دور ِ حکومت میں شروع کئے گئے۔ وزیراعظم نے سیالکوٹ میں ایل او سی کی خلاف ورزیوں کی بات نہیں کی بلکہ انہوں نے اپنے اداروں پر تنقید کی جو بالکل بھی مناسب بات نہیں ہے.....‘‘
یہ تو شیری رحمٰن کی باتیں تھیں۔ پتہ نہیں وہ یہ کہنا کیوںبھول گئیں کہ وزیراعظم اور ان کاخاندان بار بار یہ پوچھ رہا ہے کہ ’’ہم پر الزام کیا ہے؟‘‘خیر شیری رحمٰن کی ساری گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ تمام باتیں اسی طرح کی ہیں جس انداز میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی ٹیم کیا کرتی تھی۔ اس سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا ہے۔
یہ واقعہ اتنا پرانا نہیں بلکہ مہینہ پہلے کا ہوگا، سن لیجئے۔ اسلام آبادکے ایک بڑے ہوٹل میں لوگ محو ِ انتظار تھے، انتظار کرنے والوں میںسیاستدان بھی تھے، کئی ملکوں کے سفارتکار بھی اور کچھ صحافی بھی۔ لوگ اسی طرح گپ شپ لگا رہے تھےجیسے کسی انتظار گاہ میں ہوتا ہے، پیپلز پارٹی کی ثقافت پسند سینیٹر سسی پلیجو مجھ سے مخاطب ہوئیں اور کہنے لگیں....آپ نے چین کے بارے میں کیا شاندار لکھا ہے، ایک ایک پہلو کی وضاحت کردی ہے، تحریر کے حسن نے چینی ثقافت کو چار چاند لگا دیئے ہیں، میں خود بھی چین جا سکتی ہوں، چین ایسا ہی ہے جیسا آپ نے لکھا‘‘....سسی پلیجو کی بات ختم ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ آپ خود سندھ کی ثقافت سے محبت کرتی ہیں، آپ کا لباس سندھی ثقافت سے محبت کی گواہی دے رہا ہوتا ہے، رہی بات چین کی تو مجھے کینیڈا سے عبدالمالک ایڈووکیٹ، مانچسٹر سے کاروباری شخصیت رانا زاہد اور نیو یارک سے دیرینہ دوست زاہد چوہدری پیشگی فرمائش کرچکے ہیں کہ میں چین سے متعلقہ کالموں کو سفر نامے کی صورت کتابی شکل دوں مگر اُن سب سے میری ایک ہی گزارش تھی جب اتنا خوبصورت لکھنے والے موجود ہیں تو ان کی موجودگی میں میری کتاب کی کیا حیثیت ہوگی؟ سینیٹر سسی پلیجو سے یہ باتیں کرکے میںراجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی کی طرف متوجہ ہوگیا، تھوڑی دیر میں وہ آگیا جس کا انتظار تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کاصاحبزادہ ہر ایک کو تپاک سے ملتا، ہنستے مسکراتے چہرے والا بلاول بھٹو ہر ایک کو اس کے پاس جا کر ملا، اس نے تقریر بھی کی، مجھے بھی دیکھ کر فیصل کریم کنڈی سے کہا....کنڈی صاحب انہیں میرے پاس لائیں، ہمارے پرانے دوست ہیں‘‘.....تادم تحریر فیصل کنڈی اس مشن میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ خیر یہ تقریب کئی حوالوں سے شاندار بھی تھی اوریاد گار بھی جب یہ تقریب ختم ہوئی تو میرے پاس پیپلز پارٹی کا ایک دیرینہ کارکن آیا، واضح رہے کہ اس کارکن نے بینظیر بھٹو شہید کے ساتھ کام کیا ہوا ہے، وہ مجھ سے کہنے لگا، آج کی تقریب بالکل محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے وژن کے مطابق تھی اگر پیپلز پارٹی میں شیری رحمٰن جیسے دس لوگ ہوں تو یہی پارٹی ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہوگی ۔ یہ باتیں اُس پرانے کارکن کی تھیں ۔
میں فی الحال آپ کی خدمت میں وسیم بریلوی کی غزل پیش کرنے لگا ہوں، ہوسکتا ہےاس سے میرا دوست مجاہد بریلوی بھی بہت خوش ہو
شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں
اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
پھر وہی تلخیٔ حالات مقدر ٹھہری
نشے کئے بھی ہوں کچھ دن میں اتر جاتے ہیں
اک جدائی کا وہ لمحہ جو مرتا ہی نہیں
لوگ کہتے تھے کہ سب وقت گزر جاتے ہیں
گھر کی گرتی ہوئی دیواریں ہی مجھ سے اچھی
راستہ چلتے ہوئے لوگ ٹھہر جاتے ہیں
ہم تو بے نام ارادوں کے مسافر ہیں وسیمؔ
کچھ پتا ہو تو بتائیں کہ کدھر جاتے ہیں

تازہ ترین