• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک وقت تھا جب ایئر لائن میں سفر کرنے والے پاکستانی اور حتیٰ کہ باہر ممالک سے تعلق رکھنے والے بھی پی آئی اے کے ذریعے ملک کے اندر اور بیرون ملک سفر کرنے کو ترجیح دیتے تھے‘ یہ وہ زمانہ تھا جب پی آئی اے کے چیئرمین ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان ہوا کرتے تھے‘ ایئر مارشل نور خان ہوا کرتے تھے یا انور جمال ہوا کرتے تھے‘ اس کے بعد بھی پی آئی اے کو کچھ وقت کے لئے اچھی انتظامیہ ملی‘ اس دور میں پی آئی اے کے ملازمین بھی خوش تھے تو مسافر بھی بہت مطمئن تھے‘ بعد میں پی آئی اے کو یا تو پرائیوٹائز کرنے کی کوشش کی گئی یا ’’غیر قانونی‘‘ طور پر اسکی اصل شکل بگاڑ کرایک عجیب و غریب کمپنی کی شکل دینے کی کوشش کی گئی‘ اس دور میں پی آئی اے کے ملازمین کو مناسب پنشن دی جاتی تھی جس سے ملازمین ریٹائر ہوکر بھی اچھی زندگی گزارتے تھے‘ بعد میں پی آئی اے سے تو دو دو ہاتھ کیے گئے مگر اور تو اور پنشن یافتہ ملازمین سے بھی دو دو ہاتھ کیے گئے جس کے بعد یہ پنشن یافتہ ملازمین سخت مشکلات کا شکار ہیں‘ میں اب تک پی آئی اے کے کئی اور پہلوئوں پر کئی تفصیلی کالم لکھ چکا ہوں مگر جب پی آئی اے کے متاثر پنشن یافتہ ملازمین نے مجھے اپنی پریشانیاں بیان کیں، ان کی معلومات کافی فنی نوعیت کی بھی تھیں تو ان کی کہانی کئی نئے انکشافات سے بھری ہوئی بھی تھی لہذا میں نے ان کی ان مشکلات پر کالم ان کی طرف سے ظاہر کی گئی تفصیلات کے حوالے سے لکھنے کا فیصلہ کیا‘ ان کی معلومات کے مطابق پنشن اور گزارا الائونس کا آغاز دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں باقاعدگی سے ہوا‘ اس وقت پنشن اور گزارا الائونس کو متعارف کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ضعیف اور ناتواں لوگ معاشرے پر بوجھ نہ سمجھے جائیں‘ وہ بھی باعزت زندگی گزاریں اور کسی کے محتاج نہ ہوں(سبحان اللہ)۔ برصغیر میں جب انگریز سامراج نے پائوں جمائے اور حکومت کی تو اس نے سرکاری ملازمین کے لئے پنشن اسکیم رائج کی‘ اس کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ یہ بتائی گئی کہ سرکار برطانیہ کا کوئی ملازم اور اہلکار ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد بھیک مانگتے یا کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتا نظر نہ آئے کہ یہ تاج برطانیہ کی ہتک اور توہین ہوگی‘ پنشن اسکیم پاک و ہند میں آج بھی جاری ہے اور اسے قانونی اور آئینی حیثیت حاصل ہے‘ اس کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں فنڈز کی فراہمی کا واضح پلان تیار کرتی ہیں اور پھر تقریباً ہر سال اپنے اپنے مالی بجٹ پیش کرنے کے موقع پر ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے اضافہ بھی کرتی ہیں۔ پی آئی اے حکومت کی قائم کردہ قومی ایئر لائن ہے‘ قیام پاکستان کے وقت 1947ء میں یہ اورینٹ لائنز کے نام سے کام کررہی تھی اور اس کا مرکزی دفتر کلکتہ میں تھا‘ مرزا احمد ایم اصفہانی نے اسے کراچی منتقل کیا‘ اس وقت ایک نجی ایئر لائن ’’پاک ایئر ویز‘‘ کے نام سے بھی کام کررہی تھی‘ دونوں ایئر لائنوں کو مارچ 1955 ء میں ضم کردیا گیا اور یہ ’’پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن‘‘ پی آئی اے کے نام سے کام کرنے لگی‘ اس کا انتظام ’’بورڈ آف ڈائریکٹرز‘‘ کے سپرد کیا گیا‘ حکومت کا نامزد فرد اس کا چیئرمین ہوتا تھا‘ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے‘ اگرچہ اس دوران پی آئی اے کی نجکاری پر بھی عمل ہوتا رہا ہے‘ پی آئی اے 1976 ء میں جبکہ پی آئی اے کے سربراہ ایئر مارشل نور خان تھے اور ادارے میں ایک یونین ’’پیاسی ‘‘ سودا کاری ایجنٹ تھی‘ اس وقت پی آئی اے میں سی بی آر (سینٹرل بورڈ آف ریونیو) اور بعد میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی منظوری سے پنشن رائج کی گئی۔ اس سلسلے میں جو قواعد و ضوابط مرتب کیے گئے جن کے تحت پی آئی اے پنشن فنڈ قائم کیا گیا اور ساتھ ہی بورڈ آف ٹرسٹیز بھی قائم کیا گیا‘ بورڈ آف ٹرسٹیز اس وجہ سے بنایا گیا تاکہ اس کا حساب کتاب اور انتظام شفاف طور پر الگ رکھا جاسکے‘ اس وقت پی آئی اے نے ہر ملازم کی تنخواہ پنشن ٹرسٹ فنڈ میں سالانہ 25 فیصد تک رقم مختص کرنے کا اہتمام کیا اور ساتھ ہی یہ بھی طے کیا گیا کہ یہ ملازمین کی پنشن کی کیلئے ہی استعمال ہوگا اور کسی اور مقصد کیلئے اس فنڈ کو استعمال نہیں کیا جائے گا‘ ماسوائے محفوظ سرمایہ کاری کے جن کا منافع اسی فنڈ میں اور اسی مقصد کے لئے استعمال کیا جانا تھا۔ شروع شروع میں پنشنرز کی تعداد کم تھی جو رفتہ رفتہ بڑھتی گئی‘ اب ریٹائرڈ پنشنرز کی تعداد 5 ہزار سے کچھ اوپر ہے‘ 1992 ء میں پی آئی اے میں پنشن رولز میں سی بی آر کی منظوری کے بغیر بڑی بنیادی تبدیلی کی گئی جس کے تحت آئندہ ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو 1992 ء کی تنخواہ کے تحت پنشن دیناطے کیا گیا جبکہ ’’یونیورسل‘‘ اصول یہ ہے کہ "Last Pay Drawn" کے مطابق پنشن کا تعین کیا جاتا ہے‘ اس ایک تبدیلی کا اثر یہ ہوا کہ آج پی آئی اے کا تقریباً ہر ایک پنشنر پریشانی کا شکار ہے‘ حتیٰ کہ عدالت نے بھی پی آئی اے میں ’’ماسٹر اینڈ سرونٹ‘‘ اصول مانتے ہوئے ملازمین کی داد رسی نہیں کی‘ اب انتہائی کم پنشن کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پی آئی اے کے ایک سابق ایم ڈی کی پنشن 3332 روپے اور ایک دوسرے ایم ڈی کی پنشن 9500 روپے ماہانہ ہے (ان صاحب کی ملازمت کا دورانیہ کم و بیش 20 سال ہے) اب نچلے درجے کے ملازمین کی پنشن کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہونا چاہئے جو ایک ہزار روپے ماہانہ بھی ہے جبکہ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کم از کم پنشن اس وقت چھ ہزار روپے ماہانہ ہے‘ یہ صورتحال اتنی بھیانک اور خطرناک ہے کہ اب پی آئی اے کے کچھ پنشنرز بھیک مانگتے دیکھے گئے ہیں‘ اب تو بجلی کا بل بھی چار، پانچ ہزار روپے سے کم نہیں ہوتا‘ اس حالت میں دو وقت کی باعزت روٹی کا حصول بھی کتنا مشکل ہوگا ! پی آئی اے کے ریٹائرڈ ملازمین کی ایک تنظیم نے تو ایسے مفلوک الحال پنشنرز اور بیوائوں کیلئے ’’زکوٰۃ فنڈ‘‘ بھی قائم کیا ہوا ہے جبکہ یہاں پنشن کی ادائیگی کا بھی کوئی واضح ٹائم فریم نہیں ہے‘ لوگ مارے مارے پھرتے ہیں‘ ان کے ساتھ کھلا امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے دوسری جانب پی آئی اے کے اعلیٰ افسران کی تنخواہوں و مراعات آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب پنشن میں اضافے کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ پی آئی اے کے پاس رقم نہیں ہے (حالانکہ پنشن فنڈ ٹرسٹ میں اربوں روپے پہلے سے موجود ہیں) دوسری طرف اکتوبر 2015ء سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے مگر پنشن نہیں بڑھائی گئی جبکہ پی آئی اے کے اپنے ایک سرکلر No 21/2003 جو 31 جولائی 2003 ء کو جاری کیا گیا اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’آئندہ پنشن میں اضافہ تنخواہ میں اضافے کے ساتھ منسلک ہوگا۔

تازہ ترین