• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لگا ہے سیاسی مینابازار دیکھو!
پاناما کیس سے متعلق کتنی ہی راگنیاں الاپی جارہی ہیں مگر کسی بھی گائیک کا ہاتھ سُر پر نہیں پڑ رہا، سرمد کا مصرع ہے؎
ہر کس بزعم خویش خبطے دارد
ہرکسی کا اپنا اپنا خبط ہے، اور ان خبطوں نے قوم کو خبطی بنا دیا ہے، کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ عدالت میں کوئی اہم کیس زیر سماعت ہو اور کاروبار حیات ٹھپ ہو کر رہ جائے۔ ہر شخص کے دماغ میں ایک عدالت لگی ہوئی ہے جو اپنی پسند کا فیصلہ پہلے کر چکی ہے، لیکن سماعت جاری ہے، سپریم کورٹ کے باہر سیاست کا مینا بازار ہر روز لگتا ہے جنہوں نے کبھی سپریم کورٹ کا منہ نہیں دیکھا آج کشاں آتے ہیں، حکومتی اور اپوزیشن دھڑے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور عدالت برخواست ہونے کے بعد بھی چونچیں لڑاتے رہتے ہیں، ایک روزفیصلہ بھی آجائے گا، پی ٹی آئی کے ساتھ وہ بھی امید سے ہیں، جو یہ کہتے تھے؎
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
اوراب تو وزیراعظم نے بھی ایک جلسے میں اسی غزل سے اپنے مطلب کا یہ شعر سنا دیا ہے ؎
کعبے کس منہ سے جائو گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
اگر شہباز شریف بھی چاہیںتو یہ شعر داغ دیں؎
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
اورعوام کے من میں آئے تو یوں کہہ سکتے ہیں؎
پہلے آتی تھی بجلی گھنٹہ گھنٹہ بھر
اب جو جاتی ہے لوٹ کر نہیں آتی
٭٭٭٭٭
تعلیم منافع بخش کاروبار
وطن عزیز میں سرکاری تعلیمی ادارے تو گنتی کے ہیں لیکن بازار علم خوب گرم ہے، چوبارہ اکیڈمیوں سے لیکر ہر قسم کے اسکول، کالج، یونیورسٹیاں کثیر تعداد میں موجود ہیں، یہ تمام نجی تعلیمی سیکٹر اپنے نصاب، نظام، فیس اور معیار اساتذہ میں گوناگوں رنگ رکھتا ہے، اسی تعلیم فروشی نے علم کے تاجروں کو راتوں رات امیر سے امیر ترین بنا دیا ہے مگر ان کا معیار غریب سےغریب ترین ہے، کوئی غریب کا بال نجی اسکولوں میں والدین کی کمزور مالی حالت کے باعث نہیں پڑھ سکتا، سرکاری اسکولوں کی حالت یہ ہے کہ اس میں غریب کے بچے داخل تو ہوسکتے ہیں پڑھ نہیں سکتے، دیہات میں سرکاری اسکولوں میں گائے بھینسیں داخلہ لے چکی ہیں اس لئے ہمارے ہاں پڑھے لکھے انسانوں کی کمی اور جاہل جانوروں کی کثرت ہے، ہر حکومت نےاپنے دور میں تعلیم کے شعبے کو یتیم رکھا اور سرکاری اسکولوں کو یتیم خانہ بنایا، ایسے میں پرائیویٹ سیکٹر میں ماسوا چند کے اکثر تعلیمی ادارے محض دکان تعلیم ہیں، ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں بہترین دماغ بیورو کریسی کو دے دیتے ہیں اور تعلیمی اداروں میں پڑھانے والوں کو صرف ٹوٹل پورا کرنے، سفارش پر بھرتی کرنے کیلئے ہی رکھا جاتا ہے، نیم استاد نیم طالب علم پیدا کرے گا اور یقیناً ہمارے پیچھے رہ جانے کا بڑا سبب تعلیم کے شعبے سے سوتیلا پن جیسا سلوک ہے، یکساں تعلیمی نظام ہوتا تو آج ہمارے ہاں طبقاتی کشمکش اور تفاوت بھی نہ ہوتا، کروڑوں بچے اسکول جانے کی عمر میں مزدوری کرنے جاتے ہیں اور وہ اسکول جانے والے اجلی یونیفارم پہننے والے بچوں کو حسرت سے دیکھتے ہیں اور آسمان ہمارے حکمرانوں پر تبرا پڑھتا ہے۔
٭٭٭٭٭
دونمبری
دو نمبری نے اسقدر پذیرائی حاصل کی ہے کہ اب یہ ایک مائنڈ سیٹ کی صورت اختیار کر چکی ہے، جیسے کہتے ہیں ہر بیماری پہلے انسانی دماغ میں پیدا ہوتی ہے پھر جسم کا رخ کرتی ہے ایسے ہی دو نمبری بھی پہلے دو نمبر افراد میں پیدا ہوئی اور پھر مارکیٹ میں آئی، ایک گاہک بڑی چاہ سے فریج خریدنے جاتا ہے، ڈیمو پر رکھے فریجوں میں ایک پسند کرتا ہے، رسید کٹ جاتی ہے پیسے ادا ہو جاتے ہیں، اور ایک ملازم گودام سے ڈبہ پیک پیس لینے جاتا ہے، گاہک کا ایمان اورپختہ ہو جاتا ہے کہ ڈبہ پیک فریج لیکر گھر جائوں گا تو شوق کا عالم کیا ہوگا، الغرض سیل لگا فریج گھر پہنچ جاتا ہے، ایک آدھ دن تو خوب کام کرتا ہے پھر کام دکھانا شروع کردیتا ہے، شکایت کرنے جاتا ہے تو ایک مکینک اس کے ہمراہ بھیج دیا جاتا ہے، اور وہ کوئی منتر پڑھ کر فریج ٹھیک کردیتا ہے قصہ مختصر کہ وارنٹی کے باوجود اس کے سر وہ فریج منڈھ دیا جاتا ہے، پھر کہ اس کی مرمت کراتے کراتے فریج کی مرمت پر لگ بھگ فریج کی قیمت جتنے پیسے لگا کر بھی ایک اعلیٰ کارکردگی والے فریج کا مالک نہیں بن پاتا، یہ ایک مثال ہے، ایسی مثالوں سے پورا ملک بھرا پڑا ہے، دو نمبری کسی ایک چیز میں نہیں دو نمبردل، پیار، رشتے، دولہے، دلہنیں ہر رشتے میں بھی موجود ہے۔ پاکستان کے بازاروں سے ایک نمبر چیز خریدنے کیلئے آئن اسٹائن کا دماغ چاہئے کیونکہ ہمارا کوئی دکاندار سقراط سے کم نہیں۔ سنا ہے چین میں ایک سے سو نمبر تک اشیا دستیاب ہیں، ہمارے تاجر شاید سوویں نمبر کا مال چائنا سے درآمد کرتے ہیں۔ چین سے ترقی یافتہ ممالک اس کا بہترین مال منگواتے ہیں مگر ہمارے درآمدکنندگان کو ہم سے بہت پیار ہے۔
٭٭٭٭٭
بوالعجبیاں!
٭...شیخ رشید کمرہ عدالت میں خراٹے لیتے رہے ہلا کر اٹھایا گیا،
کیا یہ کنٹمپٹ نہیں؟
٭...ملائم سنگھ یادیو(بھارت):پاکستان نہیں، چین ہمارا دشمن ہے دوست کا دشمن، دشمن ہوتا ہے۔
٭...ناز بلوچ:پی ٹی آئی میں خواتین کیلئے کوئی جگہ نہیں،
خان کے لشکر میں مقدمۃ الجیش صرف خواتین پر مشتمل ہوتا ہے آپ کیا گئیں کہ گویا پی ٹی آئی سے صنف نازک کا وجود ہی اٹھ گیا، یہ عجب منطق ہے۔

 

تازہ ترین