• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاء فرمز سے 24/7تصدیق کرائی جاسکتی ہے،ماہر برطانوی قوانین

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیرمملکت برائے اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ وزیراعظم کی تقریر ایڈٹ کا فیصلہ کسی نے نہیں کیا،نوازشریف نےپورےخاندان کو40،50 سال کےریکارڈ کیساتھ احتساب کیلیےپیش کیا،پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ وزیر اعظم کی تقریر ایڈٹ کی گئی،سپریم کورٹ میں حسین نواز نے دستاویز پوری ذمے داری سے جمع کرائیں ،ججز کے سوالات کورٹ آرڈر نہیں ہوتے ،جے آئی ٹی سے متعلق وزیراعظم کی تقریر سپریم کورٹ میں پٹیشن کا حصہ ہے ۔

ماہرقانون کامران مرتضٰی نے کہا کہ برطانیہ میں کوئی غلط تصدیق کرے تو وکیل کا لائسنس کینسل ہوسکتاہے،برطانیہ میں کاغذات کی تصدیق بہت ذمےداری سے کی جاتی ہے ،ماہرقانون جسٹس(ر)ناصرہ جاوید نے کہا کہ ارسلان افتخار کا کیس ایسا نہیں جسے مثال بنایاجائے،جے آئی ٹی رپورٹ میں منی ٹریل نہیں نکلی ،ماہر برطانوی قوانین بیرسٹر راشد اسلم نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کی اگر ہفتے کے روز تصدیق کی گئی تو اس میں کوئی بے قاعدگی نہیں ہے، برطانیہ میں لاء فرمز ہفتے کے ساتوں دن بھی کام کرتی ہیں بلکہ ہفتے کے دن تو اکثر فرمز کھلی ہوتی ہیں، بہت سی لاء فرمز 24/7کام کرتی ہیں جہاں تصدیق کروائی جاسکتی ہے، یہ ٹرسٹ ڈیڈ جرمی فری مین نے تصدیق کی ہے جو 1977ء سے سولیسٹر ہیں، ایک شخص جو 39سال سے کام کررہا ہو اس پر شک کرنا تھوڑا مشکل ہوجاتا ہے، اگر سولیسٹر چاہے تو ہفتے کے روز بھی دستاویز کی تصدیق کرسکتا ہے، اس حوالے سے کوئی قانونی قدغن نہیں ہے۔

بیرسٹر راشد اسلم کا کہنا تھا کہ اگر کوئی لاء فارم ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کرتی ہے تو اسے عدالت کو ماننا پڑے گا، اس پر کسی ادارے یا عدالت میں سوال نہیں اٹھ سکتا ہے، اگر لاء فرم مانتی ہے اس نے دستاویزات کی تصدیق کی ہے تو اسے برطانیہ کی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ماہر برطانوی قوانین شاہد خان نے کہا کہ برطانیہ میں سولیسٹر چوبیس گھنٹے آن کال ہوتے ہیں، ہم ہفتے کے ساتوں دن کام کرتے ہیں، کسی کلائنٹ کو کسی وقت بھی ملنا ہمارے لئے نارمل بات ہے، کلائنٹ کو جس وقت ضرورت ہوتی ہے ہماری سروسز موجود ہوتی ہیں، ہفتے اور اتوار کے دن دستاویز کی تصدیق ہونے کے علاوہ نوٹرائز بھی ہوسکتا ہے، اگر کوئی لاء فرم کسی ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کرتی ہے توبرطانوی عدالت میں یہ قابل قبول ہوگی، اگر ساتھ کوئی کرمنل انویسٹی گیشن ہورہی ہے تو عدالت اس پر اپنی رائے اور فیصلہ دے سکتی ہے۔

ماہر قانون ناصرہ جاوید اقبال نے کہا کہ نواز شریف کو نااہل کرنا یا نہ کرنا جج صاحبان کی صوابدید پر ہے، دو ججوں نے تو بغیر مزید معلومات کے فیصلہ کردیا ان کے پاس تو جے آئی ٹی کی لمبی چوڑی رپورٹ ہے ،جس میں فراڈ بھی ہے، جعلسازی بھی ہے اور کوئی منی ٹریل نہیں نکلی، شریف خاندان کے پاس منی ٹریل ہی نہیں ہے، جے آئی ٹی قطری شہزادے کا بیان ویڈیو لنک پر بھی لے سکتی تھی، ارسلان افتخار کیس میں کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی گئی تھی، اس وقت کے چیف جسٹس کے بیٹے کیخلاف پروسیڈنگ درست نہیں تھی۔ماہر قانون کامران مرتضیٰ نے کہا کہ برطانیہ میں لاء فرمز نہایت ذمہ داری کے ساتھ دستاویزات کی تصدیق کرتی ہیں، برطانیہ میں کوئی غلط تصدیق کرے تو وکیل کا لائسنس منسوخ ہوسکتا ہے، وزیراعظم کی نااہلی کیلئے صرف جے آئی ٹی کی رپورٹ پر انحصار نہیں کیا جاسکتا ہے، پاناما کیس میں سپریم کورٹ کی بنائی جے آئی ٹی کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی ہے، جے آئی ٹی رپورٹ میں جو مواد ہے اس پر شریف خاندان کو کلین چٹ بھی نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی انہیں مجرم ٹھہرایا جاسکتا ہے، معاملہ مزید تحقیقات طلب ہے۔

وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ نواز شریف نے خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کیلئے چالیس پچاس سال کے ریکارڈ کے ساتھ پیش کیا ہے، وزیراعظم جب اپنے ووٹرز سے بات کریں گے تو انہیں بتائیں گے کہ میرا احتساب نہیں استحصال ہورہاہے، جے آئی ٹی کارروائی پر تحفظات وہ اپنے ووٹرز کو تو بتائیں گے،پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ پی ٹی وی پر وزیراعظم کی تقریر ایڈٹ ہو کر as live چلی ہو، وزیراعظم جب دور علاقوں میں جلسے کرتے ہیں ، بہت سی جگہوں پر اس صورتحال میں پی ٹی وی کیas live   نشریات ہی چلتی ہے، کیا وزیراعظم کو نہیں پتا کہ پی ٹی وی کے علاوہ بھی ان کی گفتگو ریکارڈ کی جاسکتی ہے، وزیراعظم کی تقریر کا صرف یہی پورشن ایڈیٹ نہیں ہوا بلکہ جہاں ڈسٹربنس آتی ہے ان تمام چیزوں کو دیکھا جاتا ہے، میں دیکھ رہی ہوں یہ حصہ کس طرح ایڈیٹ ہوا، وزیراعظم نے وہاں کھلے مجمع میں بات کی اسے چھپانے کوئی مقصد نہیں ہوسکتا تھا، وزیراعظم نے جے آئی ٹی سے متعلق جو بات کی وہ تو پہلے ہی شریف خاندان کی پٹیشن کا حصہ ہے۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ ججوں کے سوالات کورٹ آرڈر کا حصہ نہیں ہوتے ہیں، سپریم کورٹ کے کسی جج نے شریف فیملی کی دستاویزات کو نہ جعلی کہا اور نہ ہی مسترد کیا، حسین نواز اور شریف خاندان نے سپریم کورٹ میں دستاویزات پوری ذمہ داری سے جمع کرائی ہیں، تمام دستاویزات سرٹیفائیڈ، ویریفائیڈ اور نوٹیفائیڈ ہیں، جے آئی ٹی کی دستاویزات کی تردید میں بھی تمام دستاویزات سپریم کورٹ میں پیش کی جائیں گی، چالیس سے پچاس سال پرانی وہی دستاویزات پیش کی جاسکتی ہیں جو دستیاب ہوں ، جے آئی ٹی حسین نواز کی جمع کرائی دستاویزات کے مقابلہ میں نجی فرم کی دستاویز لے کر آئی ہے۔

میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر جمی ہیں جہاں سے آئندہ چند دنوں میں اہم فیصلہ آنے کا امکان ہے، پاناما کیس میں روزانہ ڈرامائی موڑ آتے ہیں، ایک دن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے سر سے خطرہ ٹل گیا ہے، اگلے ہی دن ایسا لگتا ہے کہ خطرہ برقرار ہے، کل ایسا محسوس ہوا کہ وزیراعظم خطرے سے نکل آئے ہی مگر آج ایسا لگا کہ وزیراعظم اب بھی خطرے سے باہر نہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ریمارکس اور فائنل فیصلے میں فرق ہوتا ہے، ججز کیا سوچ رہے ہیں وہ فیصلے سے پتا چلتا ہے ، ریمارکس اور سوال جواب سے نہیں۔

شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ عدالت نے آج شریف خاندان کی طرف سے پیش کیے گئے اہم اور بنیادی دستاویزات پر سوالات اٹھادیئے، شریف خاندان کے مرکزی گواہ قطری شہزادے کی پیشکش بھی بظاہر مسترد کردی گئی، اگر یہ دستاویزات مسترد ہوجاتی ہیں اور قطری کا خط بھی فسانہ قرار پاتا ہے تو شریف خاندان کیلئے بہت سی مشکلات کھڑی ہوجائیں گی، یہ واضح ہو کہ ریمارکس میں ضرور سوالات کیے گئے مگر قطری شہزادے کے خط کے حوالے سے بعد میں چیزیں شامل بھی ہوئی ہیں۔

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ اب معاملہ اثاثے چھپانے اور نااہلی سے بڑھ کر جعلی دستاویزات جمع کرانے کی طرف جارہا ہے، لندن فلیٹس کے حوالے سے شریف خاندان کی طرف سے جمع کرائی گئی دستاویزات پر ریمارکس دیتے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بینیفیشل مالک مریم ہیں اس کیلئے تصدیق شدہ دستاویزات موجود ہیں، جسٹس عظمت سعید شیخ نے شریف خاندان کے وکیل سے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی غیرتصدیق شدہ نقول پریقین کرلیں تو سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ اس حوالے سے مزید تحقیقات کی جائے۔

تازہ ترین