• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلیٹ معاملہ پبلک آفس ہولڈر تک پہنچنے پر 10بنیادی سوالات

Todays Print

اسلام آباد(احمد نورانی)عدالت عظمیٰ نے جمعرات کے روز کہاہے کہ اگروزیر اعظم کے بچے یہ ثابت نہ کرسکے کہ لندن فلیٹس کی خریداری کیسے ہوئی تھی تو اس کا اثر پبلک آفس ہولڈر(وزیر اعظم نوازشریف)پر ہو گا۔

تاہم اس اصول کا اطلاق ارسلان افتحاراور سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائی پر نہیں ہوا تھا۔یہ بات قبول کی جاچکی ہے کہ کرپشن یا اختیارات کے غلط استعمال کا کوئی الزام وزیر اعظم کے خاندان پر نہیں ہے۔جب کہ ارسلان افتخار جو کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ہیں اور سابق آرمی چیف جنرل کیانی کے معاملے میں کرپشن اور غلط کاموں میں شامل ہونے کے سخت الزامات تھے ، جن میں سے کچھ ثابت بھی ہوگئے تھے ۔

جب کہ سویلین وزیر اعظم کے معاملے کو سنگینی کی جانب لے جایا جارہا ہےگو کہ کرپشن یا اختیارات کے غلط استعمال ثابت نہیں ہوا ہے۔چوں کہ یہ نقطہ متعدد بار بطور حتمی دلیلکے طو ر پر اٹھایا جاتا رہا ہے کہ اگر وزیر اعظم کے بچے یہ ثابت کردیں کہ فلیٹس کی خریداری کیسے ہوئی تھی تو کیس ختم ہوجائے گا اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو یہ معاملہ پبلک آفس ہولڈر تک جائے گا۔

اس حوالے سے 9بنیادی سوالات اٹھتے ہیں۔پہلا سوال، اگر متوسط طبقے کے گھرانے سے تعلق رکھنے والا شخص وزیر اعظم یا اہم عہدے  اور اسی خاندان کا کوئی دوسرا رکن بڑی جائداد حاصل کرتا ہے جیسا کہ لندن یا دنیا میں کسی بھی جگہ فلیٹس کا حصول تو واقعئی شکوک و شبہات پیدا ہوں گے کہ ٹاپ آفس ہولڈر نے ممکن ذریعہ آمدنی سے فنڈز لیے ہوں گے۔

تاہم اگر خاندان کا کئی دہائیوں سے ظاہر کیا گیابڑا کاروبار ہو تو کسی بھی مہنگی جائداد کا تعلق خاندان کے ایک رکن سے جوڑا جاسکتا ہے، جو کہ پبلک آفس ہولڈر ہے؟دوسرا سوال،کیا یہ بیان غلط ہے کہ شریف خاندان کا کاروباراسٹیل سیکٹر میں ملک بھر میں 1950،1960،1980 اور اس کے بعد بھی سرفہرست تھا؟کیا یہ تمام کاروبار اور اس سے حاصل شدہ آمدنی ڈیکلیئرڈ نہیں تھی؟تیسرا سوال،کیا یہ معلوم حقیقت نہیں ہے کہ میاں محمد شریف زندگی بھرجب تک وہ پاکستان میں رہے خاندان اور تمام کاروباری امور کے سربراہ رہےاور عام طور پر جیسا کہ پاکستان میں ہوتاہے وہ اپنا خاندانی کاروبار چلاتے رہے؟

چوتھا سوال،کیا یہ معلوم حقیقت نہیں ہے کہ حسین نواز، وزیر اعظم نواز شریف کے بیٹے اپنے دادا کے ساتھ رہے اور سرگرمی سے ان کا کاروبار دیکھتے رہے ، جب کہ وزیر اعظم نواز شریف اپنی سیاسی میں مصروف رہے؟پانچواں سوال،بہت سے معاملات میں کیا یہ پاکستان میں معمول کی بات نہیں ہے کہ جائدادیں پاکستان میں براہ راست دادا سے پوتوں کو منتقل ہوتی ہیں، جس کی وجہ ہمارے خاندانی نظام پر بھروسہ ہے، جب کہ والدین اس قسم کے کاروبار سے حاصل منافع سے مستفید ہوتے رہتے ہیں؟چھٹا سوال،شریف خاندان کے بیان کے مطابق، لندن فلیٹس قطر کے شاہی خاندان کی ملکیت میں تھے، جو برطانیہ میں اس طرح کے سیکڑوں فلیٹس کا مالک ہےاور قطری خاندان سے میاں محمد شریف کے کیے گئے ایک معاہدے کے نتیجے میں یہ فلیٹس حسین نواز کے نام پر منتقل کیے گئےجو کہ وراث کی تقسیم کے فیصلے کے مطابق تھے۔

اس بیان کا کونسا نقطہ بااختیار جے آئی ٹی نے بذریعہ ثبوت غلط ثابت کیا؟اگر یہ سچ نہ بھی ہو یا ثابت نہ کیا جاسکے جیسا کہ دعویٰ کیا گیا ہے، تب بھی وزیر اعظم نواز شریف کو اس سے کیسے منسلک کیا جاسکتا ہے، جب کہ خاندان آزادانہ طور پر بڑا کاروبارکئی دہائیوں سے چلا رہا ہے، جب کہ نواز شریف پبلک آفس ہولڈر بھی نہیں بنے تھے۔ساتواں سوال،دستاویزات کو جعلی کیسے کہا جاسکتا ہے؟تمام نکات(دلائل)جو دستاویزات کو جعلی قرار دیے جانے سے متعلق بھیجے گئے تھے ، اسی روز غلط ثابت کردیے گئے تھے۔

وکلاء نے حتمی ریمارکس کیوں دیے؟دبئی معاہدے حقیقت ہیں، جو کہ دبئی حکام کے ریکارڈز میں موجود ہیں، جنہیں جے آئی ٹی نے شاطرانہ سوالات کرکے بے وقوف بنایا۔عدالت عظمیٰ کیوں ان دبئی معاہدات کو متعلقہ دبئی حکام اور وزارتوں سے تصدیق کرانے میں دلچسپی ظاہر نہیں کررہی جو کہ ایک نئے حکم کے ذریعے باہمی قانونی معاونت کی درست درخواست کے ذریعے کیا جاسکتا ہے؟آٹھواں سوال، جے آئی ٹی نے واحد ثبوت جو کہ لندن فلیٹس کی 1990 سے شریف خاندان کی ملکیت سے متعلق تھا پیش کیا، وہ یہ تھا کہ شریف خاندا ن نے 1990 کے دوران ال توفیق انویسٹمنٹ سے قرضہ لینے کے لیے  ان فلیٹس کو گروی رکھا تھا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس وقت اس کے مالک تھے۔جے آئی ٹی کا یہ حتمی اکتشاف غلط ثابت ہوگیا کیوں کہ لندن فلیٹس کاال توفیق انویسٹمنٹ سے 1990 میں بطور وثیقہ مالی معاونت کی غرض سے استعمال نہیں ہوا تھا اور اصل معاہدے اور دستاویزات جو کہ اسٹیٹ بینگ آف پاکستا ن اور ایس ای سی پی کے پاس 1990سے جمع ہے۔

جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس قرضے کے حصول کے لیے صرف وثیقہ کا استعمال جو ہوا وہ تمام حدیبیہ پیپر ملز کی منقولہ جائدادسے لیا گیا تھا، جس میں مہنگی مشینری اور پلانٹ بھی شامل تھا۔جب جے آئی ٹی کے پیش کیے گئے اس بنیادی ثبوت  کہ فلیٹس 1990 میں وہ فلیٹس شریف خاندان کی ملکیت میں تھے ، کو رد کردیا گیا تو اب مزید کیا ثبوت درکار ہے؟نواں سوال، لندن فلیٹس کے لینڈ رجسٹری دستاویزات عدالت عظمیٰ میں جمع کروائے گئے ہیں۔

برطانوی حکومت کے ان سرکاری دستاویزات کے مطابق، برٹش ورجن آئی لینڈ(بی وی آئی) کی دو آف شور کمپنیاں نیلسن اور نیسکول ان لندن فلیٹس کی مالک ہیں، لہٰذابنیادی طور پر آف شور کمپنیوں کی ملکیت ثابت کرنا ہے۔بی وی آئی قوانین کے مطابق، حکومت یا اس کا کوئی محکمہ آف شور کمپنیوں کے اصل مالکان کا رجسٹر مرتب نہیں کرسکتا اور یہی قانونی فرمز اور رجسٹرڈ سروس فراہم کنندگان کو جمع کرایا جاتا ہے۔قانونی فرمز ، قانون کے تحت پابند ہیں کہ وہ جب بھی بی وی آئی حکومت یا اس کی کسی ایجنسی کو ضرورت ہو کسی بھی آف شور کمپنی سے متعلق مکمل معلومات فراہم کریں ۔

قانونی فرمز اصل ملکیت کا ریکارڈ بھی مرتب کرتی ہیں اور حکومت کی جانب سے کسی بھی جانچ پڑتال کے معاملے پر متعلقہ سروس فراہم کرنے والے سے معلومات فراہم کرنے کا کہا جاتا ہے اور اسی طرح یہ فرمز یہی چیز حکومت یا اس کی ایجنسی کو بھی فراہم کرتی ہیں جو اس معلومات کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اس نظام میں سروس فراہم کنندہ کے پاس حتمی معلومات ہوتی ہیں۔جب کہ صارفین  جو کہ آف شور کمپنیوں کے اصل مالکان ہوتے ہیں وہ ان سروس فراہم کنندگان سے رابطے میں رہتے ہیں  اور انہیں فیس کی ادائیگی کرتے ہیں۔یہ سوال کیا جاتا رہا ہے خدمات فراہم کرنے والے جو اپنے موکلین سے بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں، وہ ہمیشہ انہیں مطلوبہ معلومات فراہم کریں گے ۔ ایسا نہیں ہوا، وہ غلطی کر سکتے ہیں لیکن غلط معلومات فراہم کرنے پر ان خدمات فراہم کرنے والوں کو برٹش ورجن آئی لینڈز ( بی وی آئی) کے قوانین کے تحت سخت سزائوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔

ایسے کئی ہیں جنہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ کس طرح کا نظام ہے ؟ یہ آف شور کمپنیوں کا نظام ہے اور اسی طرح کام کرتا ہے ، کوئی چاہے اسے پسندکرے یا نہ کرے لیکن یہ ایسے ہی چلتا ہے ۔ایک آف شور کمپنی کا مالک بی وی آئی حکومت سے براہ راست ملکیت کا ثبوت حاصل نہیں کر سکتا۔ اسے سروس پرووائیڈر ( خدمات فراہم کرنے والے ) سے رابطہ کرنا پڑتا ہے ۔ لندن فلیٹس کے معاملے میں جو آف شور کمپنیوں کی ملکیت ہیں، ان کی تفصیلات سروس پرووائیڈرز سے لی گئیں جنہیں سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی میں جمع کرایا گیا ، لیکن آف شور کمپنیوں کے قواعد و ضوابط اور  روایات کو نہ جانتے ہوئے یہ دستاویزات فلیٹس کی ملکیت کے حوالے سے قطعی شہادت قبول نہیں کی جارہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ سروس پرووائیڈرز کے ان خطوط کو مسترد کرتے ہوئے جو ممکنہ دستاویزات پیش کی جا سکتی تھیں، کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ انہیں درحقیقت کون سی دستاویزات درکار ہیں جس سے وہ مطمئن ہو جائیں۔ حکومت ایم ایل اے درخواست کے ذریعہ بی وی آئی حکومت سے براہ راست معلومات لے سکتی ہے لیکن حتیٰ کہ اس کیس میں بھی بی وی آئی حکومت نے قانونی فرمز کو لکھنے کا طرز اختیار کیا  تو فرمز کے سروس پرووائیڈرز کو اسی لکھنے کا طرز اختیار کیاجائے گا ۔ جیسا کہ جے آئی ٹی نے بی وی آئی کی ایف آئی اے سے آف شور کمپنیوں کے بینی فیشیل اونر شپ کے حوالے سے کبھی نہیں پوچھا۔

سپریم کورٹ اب بھی درست اور مناسب ایم ایل اے درخواست کیلئے حکم جاری کر سکتی ہے تا کہ اس کی بی وی آئی حکام سے تصدیق ہو سکے۔ اگر یہ سب کچھ درست نہیں تو سپریم کورٹ کو تمام آف شور کمپنیاں غیر قانونی قرار دے دینی چاہئے یا پاکستان کیلئے بی وی آئی قوانین کی تشریح کرے اور واضح کرے کہ ایک آف شور کمپنی کی ملکیت ثابت کرنے کیلئے قطعی شہادت کیا ہو سکتی ہے جب تک یہ نہیں کیا جاتا انصاف ہوگا اور نہ ہی بحث اپنے اختتام کو پہنچے گی ۔

دسواں سوال، وزیر اعظم نواز شریف کی مبینہ آف شور کمپنی کا فضول معاملہ اب بھی کچھ لوگوں کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کررہا ہےجو کم از کم ایک نقطہ پر وزیر اعظم کو نااہل قرار دلوانا چاہتے ہیں گو کہ جے آئی ٹی نے جتنے نکات اپنی رپورٹ میں اٹھائے ہیں وہ مکمل طور پر غلط گمراہ کن اور بے بنیادثابت ہوچکے ہیں ۔یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ایف زیٹ ای کیپیٹل آف شور کمپنی نہیں ہے لہٰذاجے آئی ٹی اسے آف شور کمپنی ٹھہرا کر پوری طرح سامنے آچکی ہے۔

اپنے بیان میں وزیر اعظم کے وکلاء نے واضح طور پر کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے اس کمپنی سے کبھی تنخواہ نہیں لی اور وہ چیئرمین کے عہدے پر بھی تعظیمی حیثیت میں فائز تھےجس کا مقصد متحدہ عرب امارات کے ویزا  اور سفر میں معاونت تھا جو کہ عام بات ہے۔اس کے ساتھ غیر قانونیت بھی منسلک ہے، گو  کہ جے آئی ٹی نے اسے اپنی 4 میں سے 1اہم کامیابی قرار دیا ہے۔جے آئی ٹی یا تو بھول گئی یا تنخواہ کی کمپنی سے نواز شریف کے اکائونٹ میں منتقلی کا کوئی ثبوت ڈھونڈنے میں ناکام ہوگئی۔جبل علی فری زون ، دبئی کے خط میں صرف یہ معلومات تھیں جو کسی غلط کام کو ثابت نہیں کرتی

۔ملکیت کی مخصوص وضاحت واضح طورپر یا عملاًحاصل نہیں کی گئی یا جے آئی ٹی کے نتائج میں شامل نہیں کی گئی تاکہ اعلیٰ عدالت کو گمراہ کیا جاسکے۔صرف شیئر ہولڈر(ز)کو مالک قراردیا جاسکتا ہے جبکہ وزیراعظم نوازشریف نہ تو کوئی ایک حصہ بھی رکھتا تھا اورنہ کبھی اس کمپنی سے کوئی مالی فائدہ حاصل کیا اوریہ بات خودجے آئی ٹی نے بھی ثابت کی ہے۔

یواے ای کی اس کمپنی میں اس اعزازی عہدے سے متعلق  سالانہ ٹیکس ریٹرنز یاالیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی)کے کسی بھی دستاویز میں کسی بھی قسم کی ڈکلیریشن کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی کیونکہ ان کا اس میں کوئی مالی فائدہ نہیں تھا۔دبئی کی مبینہ’’آف شور‘‘کے الزام سے متعلق ان تمام ثبوت شدہ نکات اورکسی بھی اورغلط کام کے ثبوت میں ناکامی  کے بعد  کیوں جے آئی ٹی کی اس ناکامی مہم جوئی اوراس کے سہولت کاروں کی آوازمیں اب تک آوازملائی جارہی ہے؟

تازہ ترین