• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری، سیاسی تقسیم کو نفرت میں تقسیم کرنے کیلئے آسان راہیں دستیاب

اسلام آباد (محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار) پاناما دستاویزات کے معاملے نے ایک بات پایہ ثبوت کو پہنچادی ہےکہ پاکستان میں سیاسی تقسیم کو نفرتوں اور عداوتوں میں تبدیل کرنے کیلئے آسان راہیں بکثرت دستیاب ہیں ملک عزیز کی سیاست میں ایسے ناپختہ لوگوں کی چنداں کمی نہیں ہے جو عالمی ریشہ دوانیوں اور سازش کا باآسانی حصہ بن کر ان کا آلہ کار بن جاتے ہیںجنہیں قومی مفادات سے دلچسپی نہیں یا پھر وہ اس کا شعور ہی نہیں رکھتے انکےنزدیک اقتدار کا حصول ہی زندگی کا سب سے بڑا ہدف اور مقصد ہے پاناما کے قضیئے کی سماعت مکمل ہوگئی ہے اس معاملے نے پاکستان کے عوام اور حکومت کے انتہائی بیش قیمت پندرہ مہینے ضائع کردیئے ہیں جن میں حکومت اور حکمرانوں کو برا بھلا کہنےو الوں نے جی پھر کردشنام طرازی اور الزامات عائد کئے جن کا کوئی وجود ہی نہیں تھا اس مقصد کیلئے اجتناب کا نام استعمال کیا گیا۔ موجودہ حکومت جون 13ء میں صریر آرائے حکومت ہوئی تو اس نے عزم ظاہر کیا کہ وہ کسمپرسی سے دوچار عوام کی حالت زار کو بدل دینے کیلئے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لائے گی اس مقصد کیلئے ملک کو بہترین انتظامیہ فراہم کی جائے گی اپنے اس عہد پر کاربند رہتے ہوئے حکومت نے کام شروع کیا توا س کی اولین سالگرہ سے پہلے ہی اس کیخلاف لانگ مارچ کا اعلان کردیا گیا اس مقصد کیلئے کینیڈا سے ایک مولوی کی کمک بھیجی گئی اور پاکستان میں موجود عمران خان کی تحریک انصاف کو ہراول دستے کا کردار سونپا گیا پاکستان کے دشمنوں کو علم ہوچکا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف نے ماضی کی تمام روایات کو فراموش کرتے ہوئے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کیلئے چین کو منتخب کیا تھا وہ چین کی سرگرم اعانت سے پاکستان میں معیشت کو سدھار کر یہاں اقتصادی انقلاب برپا کرنے کی ر اہ پر گامزن ہوچکے تھے ۔

اچانک دھاندلی کا بھوت پیدا کیا گیا اور لاہور سے مارچ کرتے ہو ئے چند سو افراد وفاقی دارالحکومت کی شاہراہ دستور پر خیمہ زن ہوگئے جسے دھرنے کا نام دیا گیا یہ سلسلہ اختتام سال تک جاری رہا اس دوران چین کے صدر شی جن پنگ پاکستان آکر 56؍ارب ڈالر کی مالیت کے اقتصادی راہداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے خواہاں تھے انکے دورے کومنسوخ کرانے کی کوشش کی گئی تاہم یہ ملتوی ہوا اس کارروائی کیلئے دھاندلی کے الزام بہانے کے طورپرا ستعمال کیا گیا سوا سال ضائع کرنے، لاتعداد ترقیاتی منصوبوں میں رخنہ ڈالنے اور انتظامیہ کو مفلوج رکھنے کے بعد ملک کے چیف جسٹس کی سربرا ہی میں عدالتی کمیشن بنایا گیا جس نے فیصلہ سنایا کہ دھاندلی کا الزام غلط ہے اس پر معافی مانگنے کی بجائے نئی تاویلیں ڈھونڈنا شروع کردی گئیں، نواز شریف حکومت نے اسے نظر انداز کرتےہو ئے عوامی بھلائی کے منصوبوں پر کام جاری رکھا اور شاندار نتائج دینا شروع کردیئے۔ سیاسی حریفوں کیلئے یہ پیش رفت ناقابل برداشت تھی وہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عام انتخابات میں بری طرح شکست کھا چکے تھے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں وہ لگاتار ہار رہےتھے و ہ چھوٹی موٹی حرکتوں سے حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنےمیں کوشاں رہے تاہم وہ حکومت کے پائوں کی زنجیر نہ بن سکے اسی دوران سات سمندر پار سے ایسے کاغذات جاری ہوئے جن کی قانون کی نظروںمیں کوئی حیثیت نہیں تھی ان میں مختلف ممالک کے لوگوں کے کاروبار اور اثاثوں کی تفصیل تھی ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ متعلقہ ادارے اپنے قانون اور قاعدے کے مطابق انکی چھان بین کرتے لیکن انہیں لیکر آسمان پر اٹھا لیا گیاپھر جو ادارہ اس میں ملوث ہوتا چلا گیا ان کاغذات کا پاکستان میں حکومتی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی وہ کسی بھی معاملے میں کوئی ثبوت کا درجہ رکھتے تھے ہڑتالیں اور ہنگامے کرنے کی کوشش کی گئی اس پورے عمل میں سوا سال سے قوم کوا لجھا کر رکھا گیا اورآج اس کا ایک باب پورا ہوا ہے اس امر کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ ہماری قومی زندگی کی کتنی مزید مدت ضائع کریگا۔

تازہ ترین