• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جے جے وی ایل کیس کی سماعت 29 جولائی تک ملتوی

کراچی(اسٹاف رپورٹر) احتساب عدالت نے جے جے وی ایل(جامشورو جوائنٹ وینچر لمٹیڈ) کیس کی سماعت 29 جولائی تک ملتوی کردی۔ تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے روبرو ڈاکٹر عاصم کے خلاف17 ارب روپے کرپشن ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ ڈاکٹر عاصم، زوہیر صدیقی، شعیب وارثی، بشارت مرزا، ملک عثمان اور خالد رحمان عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ گزشتہ سماعت پر پیش نا ہونے پر عدالت نے ملزم ملک عثمان کی سرزنش کی۔ ملک عثان نے بتایا کہ فوڈ پوائزنگ کی وجہ سے پیش نہیں ہوسکا۔ فاضل جج نے تاخیر سے پیش ہونے پر ایس ایس جی سی کے سابق قائم مقام ایم ڈی خالد رحمان کو وارننگ جاری کردی۔ ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ میری درخواست پر اظہر صدیق کو دلائل کا موقع دیا جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے اظہر صدیق آپ کے وکیل نہیں ہیں۔ آپ کی درخواست کی دوبارہ سماعت ہوگئی۔ سماعت کے دوران کمرہ عدالت سے باہر جانے پر جج نے ڈاکٹر عاصم اور ملک عثمان کی سرزنش کی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ملزم کمرہ عدالت سے کیسے باہر گئے؟ ان کے خلاف توہین عدالت کا ریفرنس دائر کیا جائے۔ جج کے سرزنش کرنے کے بعد ڈاکٹر عاصم اور ملک عثمان نے غیر مشروط معافی مانگ لی۔ عدالت کے روبرو شریک ملزم سابق سی ای او بشارت مرزا کی فردجرم عائد نا کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ بشارت مرزا کے وکیل نے کہا کہ نیب نے ریاست کی درخواست پر نہیں بلکہ سورس کی بنیاد پر ریفرنس دائر کیا۔ نیب نے انکوائری کے دس روز بعد ہی ریفرنس دائر کردیا ۔ وکیل بشارت مرزا نے موقف اختیار کیا کہ ریفرنس میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کو شامل نہیں کیا گیا۔ نیب کی تفتیش سے ایسے لگتا ہے کپڑے مانگنے آئے تھے اتار کرچلے گئے۔ جن کے خلاف کرپشن کا الزام ہے انہوں نے ملک کی معیشت بڑھانے کی کوشش کی،وکیل بشارت مرزا کا کہنا تھا کہ او جی ڈی سی ایل سات برس بعد گیس نکالنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ ایس ایس جی سی کے پاس جتنا پیسہ بھی ہے وہ جے جے وی ایل کی وجہ سے ہے۔ بیورو کریسی میں کام کرنے کی عادت نہیں ہے اس لیے پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بنائی گئیں۔ بشارت مرزا کے وکیل نے کہا کہ جے جے وی ایل کے اقبال زیڈ احمد پر کرپشن کا الزام لگایا گیا۔ موجودہ حکومت نے اقبال زیڈ احمد کو ایل این جی کا دوسرا بڑا ٹھیکہ دیا۔ کتنی بڑی تکلیف کی بات جو اس ملک میں کام کرنا چاہتے ہیں ان کو گھیسٹا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں کون انوسٹمنٹ کرے گا۔ پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ملزم جان بوجھ کر کیس میں تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں ۔ ڈاکٹر عاصم اور دیگر ملزموں پر فرجرم عائد کی جائے۔ درخواستوں کی سماعت تو چلتی رہے گی۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد ریفرنس کی سماعت انتیس جولائی تک ملتوی کردی۔ عدالت پہنچنے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے۔ نیب کے وکیل کو دیکھ کر طبعیت اور خراب ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم نے پانامہ پر کیے گئے سوال پرکہا کہ نواز شریف نے انڈیا جاکر کارگل کو مس ایڈونچر قرار دیا تھا۔ اور کہا تھا کہ پاکستان نے مودی کی کمر میں خنجر مارا۔ اب اسکے بعد کیا رہ جاتا ہے۔ سابق وفاقی وزیر نے نواز شریف کے محب وطن ہونے کے سوال پر جواب دیا کہ یہ ساری چیزیں سب کے سامنے ہیں اور میں کیا کہوں، نواز شریف کے پاس اداروں کو ذلیل کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔ ہم نواز شریف کے ایسے ایڈونچر میں شریک نہیں ہیں ۔ ڈاکٹر عاصم سے پوچھا گیا کہ آئندہ دنوں میں کیا ہونے جارہا ہے جس پر ان کا کہنا تھا کہ میں جادوگر نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ اور ٹرائل کورٹ معاملہ بھیجنے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔ ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ عدالت کے پاس صرف یہ دو راستے ہیں۔ نواز شریف کے پاس بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر عاصم سےپوچھا گیا کہ نیب نے آپ کی بہن کے گھر چھاپہ مارنے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم نے جواب دیا کہ اثر انداز ہونے کی کوشش نیب کر رہا ہے۔ غنڈے بد معاش انہوں نے رکھے ہوئے ہیں۔ میں نے تو چئیرمین نیب کے گھر چھاپہ نہیں مارا۔

تازہ ترین