• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے پانیوں میں مچھلی کی پیداوار میں کمی کی رپورٹیں حصول خوراک کے اس اہم ذریعے سے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی غفلت اور سرکاری مشینری میں کرپشن کی وہ افسوسناک کہانیاں سنا رہی ہیں ۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے حالیہ اجلاس کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ فشریز کے شعبے کی ترقی کیلئے قانون سازی، ریگولیشنز، 18ویں ترمیم سے متعلق معاملات، اور سیٹلائٹ انفارمیشن کے فقدان کے باعث سمندر اور دریائوں میں آلودگی روکنے کی سنجیدہ کوششیں نظر نہیں آرہی ہیں۔سندھ کے بعض علاقوں میں مچھلی کے شکار کیلئے بم یا ڈائنامائٹ کا استعمال کیا جارہا ہے جبکہ دریائوں میں مچھلی کے شکار کے لئے بجلی کا کرنٹ بھی چھوڑا جاتا ہے۔ مچھلیاں پکڑنے کیلئے عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں متعلقہ عملے کی غفلت یا ملی بھگت سےعام ہیں۔ اس حقیقت کی طرف ماہی گیروں کے حلقوں کی طرف سے بھی برسوں سے توجہ دلائی جاتی رہی ہے کہ سمندر میں صنعتوں کا آلودہ پانی ڈالے جانے کے باعث وقفے وقفے سے ٹنوں مردہ مچھلیاں لہروں کے ساتھ آکر جزیروں پر ڈھیروں کی صورت میں جمع ہورہی ہیں۔ یہ بھی بتایاجارہا ہے کہ کم وقت میں زیادہ منافع کمانے کیلئے ماہی گیری کے شعبے میں آنے والوں کے مفادات کیلئے نہ مچھلیوں کی افزائش کے مہینوں میں شکار پر پابندی کا خیال کیا جاتا ہے، نہ عالمی معیارکے ایسے جال استعمال کئے جاتے ہیں جن میں صرف بڑی مچھلیاں پھنستی اور چھوٹی مچھلیاں واپس پانی میں چلی جاتی ہیں۔ یہ ایسی صورت حال ہے جس کے باعث چھوٹے ماہی گیروں کیلئے معاشی مشکلات بڑھ اور بازار میں دستیاب مچھلیوں کی قیمتیں غریب صارفین کی دسترس سے باہر ہورہی ہیں۔ جبکہ مچھلیوں کی برآمد، جو پہلے ہی کم ہے مزید کم ہونے کا خدشہ ہے قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی نے وفاقی و صوبائی حکومتوں اور متعلقہ محکموں کے حکام کی مشاورت سے قانون سازی سمیت جامع لائحہ عمل بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے۔

تازہ ترین