• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے ایک مشہور وکیل جو ایک زمانہ میں ٹی وی کے میزبان بھی رہے۔ انہوں نے بہت عرصہ پہلے جب ملٹری صدر مشرف کا اقتدار پر قبضہ تھا تو انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے بارے میں صدر کو خط لکھا تھا۔ اب یہ سب کچھ ہمارا ماضی اور ہماری تاریخ ہے۔ چند دن پہلے کی بات ہے وہ ایک مقدمہ کے سلسلہ میں عدالت میں حاضر تھے اور بڑی صاف گوئی سے بیان داغ دیا تھا۔ ’’ وکیل کب ہارتا ہے ، ہارتا تو موکل ہے۔‘‘ اصل میں جب کسی طاقت ور کو اس کے جرم کی سزا نہیں ملتی تو وہ سزا پورے معاشرے پر تقسیم ہو جاتی ہے۔ ابھی چند دن پہلے کوئٹہ میں ایک ممبر صوبائی اسمبلی نے بڑی معروف شاہراہ پر تیز رفتاری سے ٹریفک پولیس کے ایک عہدیدار کو ٹکر مار کر اگلے جہان پہنچا دیا۔ پھر اپنے پیٹی بند بھائیوں نے مقدمہ نامعلوم ملزم کے حوالے سے درج کیا۔ مگر اتفاق سے اس شاہراہ پر نگرانی کے لئے کیمرہ لگایا گیا تھا۔ اس نے حقیقت حال کھول دی اور پولیس اور انتظامیہ کو اشرافیہ کے نمائندے کے خلاف مقدمہ بنانا پڑا اور صوبائی رکن اسمبلی کو شامل تفتیش کرنے کے لئے حوالات میں بند کیا گیا۔ اتنے دن گزرنے کے باوجود مقدمہ میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی جبکہ موصوف پر اغوا کا ایک اور معاملہ بھی سامنا آیا ہے جس میں وہ کافی عرصہ سے مطلوب تھے۔
صوبے کی حکومت اس معاملہ میں مکمل خاموش ہے۔ مقدمہ روایات کے مطابق تفتیش اور تحقیق کے مراحل سے گزر رہا ہے۔فوٹو اور کیمرہ کی گواہی پر بحث ہوگی اور معلوم نہیں یہ مقدمہ کتنا عرصہ چلے یا پھر فریقین عدالت سے باہر ہی معاملہ طے کریں۔ یہ سب کچھ ہمارے ہاں تقریباً روزانہ ہوتا نظر آتا ہے۔ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے لوگ انصاف اور قانون سے اتنے مایوس ہیں کہ جرم کی اہمیت ہی معاشرے میںا یک سوال ہے۔ دوسری طرف جیلوں کا جو حال ہے وہ بھی مایوس کن ہے۔ کراچی کی جیل سے دو دہشت گردوں کا فرار صوبائی حکومت کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ اس فرار میں جیل کا تمام عملہ ملوث نظر آتا ہے۔ پھر جب جیل کی تلاشی لی گئی تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ جیل کم بلکہ ایک سیکورٹی کا احاطہ ہے۔ کچھ ایسا ہی حال ملک کی دوسری جیلوں کا ہے جیلوں میں زیادہ وہ لوگ مقید ہیں جن پر مقدمات چل رہے ہیں اور وہ ملزم ہیں۔ حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ نے چند ایک ایسے مقدمات کا فیصلہ کیا جن کے ملزم سزا کے بغیر کافی عرصہ جیل میں گزار چکے تھے بڑی عدالت نے کوئی فیصلہ تو کیا اور ان کو آزادی میسر آئی۔ مگر وہ اس ناانصافی کا مداوا نہیں کروا سکتے اور نہ ہی اس بات کا تعین ہو سکا کہ اس بدعملی کا کون ذمہ دارہے اور نہ ہی کوئی عوامی ردعمل سامنے آیا۔ ہمارے عوام ان عوامل کی وجہ سے انصاف اور قانون سے مایوس ہیں پھر ہمارے عوام خود بھی بدعملی میں کسی سے کم نہیں۔
جبکہ اللہ نے اعمال کے معاملہ میں ہم سب بندوں کو آزاد کررکھا ہے اور یہ کہنا بھی غلط ہے کہ ہماری بدانتظامی اور بدعملی اللہ کی مرضی سے ہے۔ صرف خواہشوں سے قسمت اور مقدر نہیں بدلتا۔
خواہش سے نہیں گرتے پھل جھولی میں
وقت کی شاخ کو میرے دوست بلانا ہوگا
کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے
اپنے حصہ کا دیا خود ہی جلانا ہوگا
اپنے حصہ کا دیا جلانا سب سے مشکل مسئلہ ہے پھرمعاشرے میں اندھیرا اتنا ہے کہ راستہ بھی نظر آ رہا ۔ ویسے تو ملک بھر میں جمہوریت کا بہت رولا ہے اور جمہوریت اتنی روشن ہے کہ لوگوں کی بصارت جواب دے گئی ہے۔ اس جمہوریت کے وکیل سب سے زیادہ ہمارے سیاست دان ہیں۔
ہمارادوست چین اس صورتحال میں پریشان نظر آتا ہے۔ وہ عوام پر اعتبار کرتے یا جمہوریت کے نظام پر۔ انہوں نے ترقی عوام کا حال بدل کرکے کی ہے جبکہ بھارت ہمارا ہمسایہ ایک بہت بڑا جمہوری ملک ہے۔ مگر وہاں سیاست جو کچھ کر رہی ہے اس سے عام آدمی بھی خوش نہیں۔ مگر اس وقت جمہوریت کا راگ ہی اشرافیہ اور سیاست دانوں کا من پسند ہے۔ سو اس کی ہی اہمیت اور حیثیت ہے۔ خواہ عوام خاکِ زمین ہو جائیں۔
اس وقت ایک بڑے مقدمہ نے عوام کو منتشر خیال کر رکھا ہے۔ پاناما کا قصہ روزانہ ایک نئی کروٹ لیتا نظر آتا تاہم اب فیصلہ محفوظ ہو گیا ہے۔ اس مقدمہ میں عوامی مفاد بھی نظر نہیں آتا۔ مگر میڈیا نے اس مقدمہ کو عوام کی قسمت سے جوڑ دیا ہے جبکہ ہمارے عام لوگوں کا پاناما سے کیا لینا دینا۔ اس مقدمہ کی وجہ سے ہی ڈالر کی قیمت کو آگ لگ گئی تھی۔ شکر ہے آگ زیادہ نہیں بھڑکی اور اسٹاک مارکیٹ زمین بوس ہونے لگی تھی وزیر خزانہ کے اقدامات سے معاملہ ٹلتا نظر آتا ہے۔ اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ پاناما کے قصے، وزیر اعظم کے معاملات، کپتان کے الزامات، حزب اختلاف کی تقسیم نے پورے نظام کو بدحال کر رکھا ہے۔ عوام بے چارے چکی کے دونوں پاٹوں کے بیچ پس رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے بیشتر ممبران بھی اس مقدمہ سے لاتعلق نظر آ رہے ہیں۔ عوام میں انتشار کی کیفیت نمایاں ہے ۔ عوامی مسائل میں کمی نظر نہیں آتی۔ بارشوں نے شہر شہر ہلچل مچائی تو ہے شکر ہے قدرت کو غصہ نہیں آیا اور سیلاب کا خطرہ ضرور ہے مگر آیا نہیں۔ سیلاب کے خطرہ سے عوام خوف زدہ ہیں مگر سیاست دان اور اشرافیہ کو اندازہ نہیں کہ لوگ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور گوگو کے نعرے ان ہی مہربانوں کے لئے لگتے ہیں۔
اب معلوم نہیں پاناما کا مقدمہ کتنے دن چلے اور اس کا آسیب ہماری سیاست پر کب تک رہے ۔ ماضی میں سپریم کورٹ دو وزیر اعظموں کو فارغ کر چکی ہے مگر اب کی بار ایک نیا قانونی نکتہ بیان کیا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ وزیر اعظم کے بارے میں فیصلہ نہیں کرسکتی۔ وزیر اعظم عوام کی مرضی اور عوام کے نمائندوں کی منشا سے اقتدار میں آتا ہے۔ اس لئے ان کی قسمت کا فیصلہ اسمبلی اور عوام ہی کرسکتےہیں۔ اب یہ قانونی بحث اس مقدمہ کو نیا رخ دے سکتی ہے۔ اس مقدمہ کے نتیجہ میں دنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ باہر کسی سے بھی بات کرو پہلے یہ ہی پوچھا جاتا ہے کہ آپ کے وزیر اعظم کا کیا بنا۔ عدالت تاریخ بنا سکتی ہے اور ملک کسی فرد کا مرہون منت نہیں ہوتا۔ جمہوریت فرد سے نہیں عوام اور جمہور سے ہوتی ہے۔ لوگوں کا نواز شریف سے الفت کا معاملہ ہے سو فیصلہ اب میاں نوا زشریف نے بھی کرنا ہے۔
گر نہیں تجدید الفت، ترک الفت ہی سہی
حل کی جانب تو چلا ہے، مسئلہ جیسا بھی ہے

تازہ ترین