• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رحمٰن ملک نے ملکی حالات پرتبصرہ کرتے ہوئے ’’امید‘‘ کی ایک نئی قسم متعارف کرائی ہے جس سے پیپلزپارٹی کی پوشیدہ نفسیات کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ فرمایا ’’جو ماحول بن رہا ہے یوں محسوس ہوتاہے صرف پیپلزپارٹی ہی باقی رہ جائے گی۔‘‘گلیاں ویران بھی ہوجائیں تو مرزا یار پھرنے کے قابل نہیں ہوگا کیونکہ پھرنے کے لئے ٹانگوں اور ٹانگوں میں دم کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور پولیوزدہ پیپلزپارٹی میں خود اپنا بوجھ اٹھانے کی سکت بھی باقی نہیں رہی۔ باقی رہ جانے کے لئے اوربہت کچھ کرنا ہوگا۔.....OOO.....چوہدری نثار نے سفارتی پاسپورٹ بنوا لیا ہے جو آئندہ دس سال کے لئے قابل استعمال ہوگا۔ نثار کو منانے کے لئے ایک وفاقی وزیر نے ہاتھ جوڑے، ناکامی پر یہ ’’ٹاسک‘‘ شہباز شریف کو دیا گیا ہے۔ 35سالہ رفاقت توڑنا آسان کام نہیں۔ بہت بڑا اور کڑا امتحان ہے۔بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپاڑا دیئے ہیں پرندے شجر میں بیٹھے ہوئےدوسرا رُخ بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا؎کٹ ہی گئی جدائی بھی، ایسا نہیں کہ مر گئےتیرے بھی دن گزر گئے، میرے بھی دن گزر گئےجدائی کیسی بھی ہو، کسی کے درمیان بھی ہو، ذاتی طور پر مجھے بہت اُداس کردیتی ہے۔ قریبی ایک دوسرے کو خوب صورت یا بدصورت موڑ دے کربھی چھوڑ جائیں اور اک دوجے کے لئے اجنبی بن جائیں تو اس سے زیادہ تکلیف دہ بھلا اور کیاہوسکتا ہے۔ رنج و ملال کی انتہا یہ ہے کہ؎فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھاسامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھالیکن یہ سیاست کا سفاک کھیل ہے جس کے بارے سیانے کہتے ہیں کہ اس کم بخت، بدذات کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ میں نے اس میں یہ ’’قابل قدر‘‘ اضافہ کیا تھاکہ پاکستانی سیاست کی کھوپڑی میں مغز بھی نہیں ہوتا۔ چوہدری نثار جیسے باوقار راجپوت کے سر پر للوپنجو سوار کرنےکا سوچنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہئے تھا۔ اب بھی سوچ لیا جائے تو بہتر ہے لیکن پھر وہی سیاست کی سفاکی اور خودغرضی کہ میاں صاحب رشتہ تو رکھنا چاہیں گےلیکن اپنی ناگوار شرائط پر۔.....OOO.....پہلے نواز شریف نے اپنی پراسرارپانامائی زندگی کو ’’کھلی کتاب‘‘ قرار دیا تھا جس کے بہت سے اوراق ابھی تک غائب ہیں۔ اب اسحاق ڈار کے وکیل نے اپنےموکل کی زندگی کو بھی ’’کھلی کتاب‘‘ قرار دے دیا ہے لیکن اس کے بھی چند باب غائب ہیں یا ناقص پرنٹنگ کے سبب پڑھے نہیں جارہے۔ چٹکی بجاتے ہی چند سال کے اندر اندر اثاثوں کا 9ملین سے 837ملین تک پہنچ جانا ایک ایسی سائنس ہے جوبل گیٹس جیسے جینئس کے پلے بھی نہ پڑے تو پاکستانی کس کھاتے میں؟ کیا مقدر پایاہے اس ملک نے جس کا وزیراعظم بھی اقامہ، وزیرخزانہ بھی اقامہ اور وزیر دفاع بھی اقامہ..... بطور سمدھی سینیٹر کسی اور ملک کی مشیری کا مطلب کیا ہے؟ گھر کا نام ’’ہجویری ہائوس‘‘رکھنے سے کہیں بہتر تھا زندگی ہر قسم کی ہیراپھیری سے پاک ہوتی۔ سیاست کو صنعت و تجارت کی ایک قسم نہ سمجھا ہوتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔ ہے کس میں ہمت و جرأت کہ چوہدری نثار علی خان کی طرف آنکھ یاانگلی اٹھائے؟کہ اصولاً اس کھیل میںایسی ہی پاکیزگی و بزرگی درکارہے یعنی ’’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام‘‘والی بات ہے لیکن کچھ لوگوں نے اسے لوہارا ترکھانا کام سمجھ لیا جس کے نتیجہ میں کوآپریٹوز سے پاناما تک پہنچ گئے۔.....OOO.....صرف ’’حجازی‘‘ کے لفظ اور نسبت سے انسپائر ہو کر چند روز پہلے ظفر حجازی کو یہ مفت مشورہ پیش کیا تھا کہ بھائی! نسیم حجازی مرحوم و مغفور کا ’’بدر بن مغیرہ‘‘ بننے کی کوشش نہ کرنا۔ ضمانت منسوخ ہوتے ہی گرفتار ہو کر ہسپتال جا پہنچے اور سنا اب بھی ’’اڑی‘‘ کر رہے ہیں۔ ادھر خورشید شاہ صاحب سادہ سی بات کر رہے ہیں کہ کھوج لگائو ریکارڈ ٹمپرنگ کے پیچھےاصل ذات شریف کس کی ہے، تو ظاہر ہے جو اس ٹمپرنگ کا بینی فشری ہوگا ورنہ کسی نجدی، حجازی، کوفی یا بغدادی کا اس سے کیا لینا دیا۔.....OOO.....پیپلزپارٹی سے اتنے ہولے پن اور گراوٹ کی توقع نہیں تھی کہ عین آخری وقت پر عدالت پہنچ کر’’کریڈیٹ‘‘ لینے کی چھچھوری حرکت کرے گی۔ کسی کو کوئی شک نہیں کہ ’’شکار‘‘ عمران خان نے کیاہےاور یہ بیچارے مردہ شیر کے اوپر پائوں رکھ کر صرف فوٹو بنوا رہے ہیں تاکہ تاثر دے سکیں کہ یاروں کا کام ہے۔ کوئی اوریہ کارنامہ سرانجام دیتا تو قابل فہم تھالیکن قمر الزمان کائرہ اور شیری رحمٰن کو یہ کام کرتے دیکھ کر دُکھ ہوا۔ کیا ان نابغوں کو ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی کہ حالات کدھر جارہے ہیں؟ جو کچھ بچ رہا ہے اسے سمیٹ کر سندھ پر توجہ دو، وہاں صحیح معنوں میں کچھ ڈلیور کرنے کی کوشش کرو ورنہ آخر کار وہ بھی پنجاب کی طرح ہاتھوں سے ہمیشہ ہمیشہ کےلئے جاتا رہےگا۔.....OOO.....وزیراعظم نے اپنے حریفوں کو کرسی کے بھوکے قرار دیا ہے تو ٹھیک ہی ہوگا کیونکہ سیاست میں کوئی بتاشے لینےتو آتا نہیں۔ خود اپنا دیکھ لیں کہ تیسری بار وزارت ِ عظمیٰ ہڑپنے کے بعد بھی کرسی کی بھوک روز ِ اول کی طرح برقرار ہے بلکہ مزید چمک اٹھی ہے تو قصور ان کا بھی نہیں کیونکہ طاقت اور دولت پر مالتھس کے ’’افادہ ٔ مختتم‘‘ کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ یہ اصول الٹ جاتا ہے۔ طاقت مزید طاقت اور دولت مزیددولت کی بھوک کو جنم دیتی ہے ..... یہی ہمارا اصل المیہ ہے!

تازہ ترین