• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سے تیس برس قبل گرمیوں کی چھٹیوں میں ہماری واحد تفریح راولپنڈی خالہ کے گھر آنا اور پھر کچھ دن وہاں رہ کر مری جانا ہوا کرتا تھا۔ مری کا سفر اُن دنوں میرے نزدیک موت کا سفر ہوا کرتا تھا، والد صاحب گاڑی ڈرائیو کرتے تھے، سڑک کہیں سے ٹھیک کہیں سے ناہموار تھی مگر اصل مسئلہ سڑک کی تنگی اور سامنے سے آنے والی تیز رفتار بڑے منہ والی ویگنیں ہوا کرتی تھیں۔ ان ویگنوں کی ٹکر سے بچنے کے لئے جب گاڑی سڑک کے بائیں جانب ہوتی تو یوں لگتا جیسے ابھی ہزاروں فٹ کھائی میں گر جائے گی کیونکہ اس زمانے میں سڑک کے کناروں پر کسی قسم کے حفاظتی جنگلے یا پتھر نہیں لگے تھے، سو گاڑی کا ٹائر پھسلا تو آپ سیدھے عزرائیل کی گود میں۔ کئی جگہیں ایسی بھی آتیں جہاں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے جگہ مزید تنگ ہو جاتی مگر ملت کے مرد مجاہد وہاں بھی اپنی ڈرائیونگ کا جوہر دکھانے سے باز نہ آتے اور بالشت بھر جگہ میں اسی رفتار سے اوور ٹیک کرنے کی کوشش کرتے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام کوششیں کامیاب ہی رہیں کیونکہ اسی وجہ سے آپ خاکسار کا یہ کالم پڑھ رہے ہیں۔
وقت کے ساتھ دھیرے دھیرے بہتری آنی شروع ہوئی، سڑک چوڑی ہوئی، خطرناک موڑ کے کناروں پر جنگلے نصب ہوئے، بڑے بڑے آئینے لگائے گئے تاکہ دوسری جانب سے آنے والی ٹریفک کا بروقت اندازہ ہو سکے، سڑک کی کارپٹنگ کی گئی۔ پہلے مری جانے والے راستے میں ’’چھرا پانی‘‘ اور اِس قسم کی دو چار جگہیں ہوا کرتی تھیں جہاں سے آپ چائے اور پکوڑوں سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے، اُس چائے میں built inچار چینی کے چمچ ہوتے تھے، پی کر مزا آجاتا تھا۔ اب تو مری کے پورے راستے میں جا بجا کیفے اور ریستوران کی بھرمار ہو گئی ہے، مری کی پرانی شاہراہ اب ایسی ہو گئی ہے کہ آپ سو کی رفتار سے گاڑ ی بھگا کر لے جا سکتے ہیں۔ ایکسپریس وے اس کے علاوہ ہے جو باقاعدہ موٹروے ہے، ایکسپریس وے پر سفر کرتے وقت یوں محسوس ہوتا ہے جیسے جدید ترقی یافتہ ملک کے پہاڑی علاقے میں ڈرائیو کر رہے ہیں جس کے چاروں طرف خوبصورت نظاروں سے بھرپور پہاڑ ہیں اور ساتھ ہی مکمل حفاظت کا احساس ہے۔ اب اسلام آباد سے مری کا سفر ایسا ہے جو آپ سال کے کسی بھی دن کریں آپ بور نہیں ہو سکتے، مگر اس کا اصل حسن برف باری کے موسم میں ہے۔ برف باری راستے میں مل جائے تو اچھا خاصا خطرناک ایڈونچر ہو سکتا ہے کیونکہ برف باری سے سڑک بلاک ہو جائے تو گھنٹوں کے لئے چھٹی اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو برف کی وجہ سے سڑک شیشے کی بن جاتی ہے، جس کی وجہ سے گاڑ ی یوں پھسلتی ہے جیسے کسی خوبصورت خاتون پر نظر پھسلتی چلی جاتی ہے، بریک لگانے کی کوشش کریں تو مزید پھسلتی ہے، گاڑی بھی اور نظریں بھی۔ لیکن ترقی کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ اب اگر برف باری ہو تو چند گھنٹوں میں جدید مشینوں کی مدد سے برف ہٹا دی جاتی ہے، لینڈ سلائیڈنگ سے بچاؤ کے لئے بھی جگہ جگہ پہاڑوں میں لوہے کے جال نصب کئے گئے ہیں، ٹریفک پولیس کے دستے یہاں تعینات ہیں جو حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں ٹریفک بلاک نہ ہو۔ تاہم برف باری کا اصل مزا مری پہنچ کر آتا ہے، وہاں برف باری مل جائے تو کیا کہنے، لوگ چیخیں مارتے ہوئے مال روڈ پر نکل آتے ہیں اور پھر کڑاہی گوشت کھا کے چیخیں روکتے ہیں۔ یہی ایک تفریح ہے جو بالآخر پاکستان کے بیشتر تفریحی مقامات پر میسر ہے، انتخاب صرف یہ کرنا ہوتا ہے کہ نمکین دنبہ کڑاہی کھائی جائے، روایتی چکن، مٹن یا پھر مچھلی۔ اور پھر ہر قسم کی اوور ایٹنگ کے بعد ڈائٹ ڈرنک کا آرڈر۔
دنیا کے بہت کم ممالک ایسے ہیں جہاں دریا بھی ہیں اور پُرشکوہ پہاڑ بھی، بپھرے ہوئے سمندر بھی ہیں اور خاموش صحرا بھی، خوبصورت ساحل بھی ہیں اور لہلہاتے کھیت بھی، معدنیات کے خزانے بھی ہیں اور سرسبز وادیاں بھی، دیوسائی جیسے بلند ترین میدان بھی ہیں اور سیاچن جیسی برف پوش چوٹیاں بھی۔ لاہور سے لے کر گوادر تک اور خیبر سے لے کر مہران تک ہم ایک عظیم تہذیب کے بھی وارث ہیں، اس ملک میں میسر نعمتوں کا اگر ہم شمار کریں تو لامحالہ ہمارے ذہنوں میں سورۃ رحمان کے الفاظ گونج اٹھیں گے جس میں خدا تعالیٰ اپنی نعمتوں کا ذکر فرماتے ہوئے بار بار انسان سے پوچھتا ہے :’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے!‘‘ بدقسمتی سے ہم اِن نعمتوں کا فائدہ نہیں اٹھا سکے، جس قسم کا ٹورازم کا اثاثہ پاکستان کے پاس ہے اس کا عشر عشیر بھی کسی مغربی ملک کے پاس ہو تو وہ اس سے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتا ہے، مغربی ملک کو بھی چھوڑیں، بھارت، سری لنکا، مالدیپ جیسے ملکوں میں غیر ملکی سیاح یوں آتے ہیں جیسے وہاں کوئی خوبصورتی کے خزانے دفن ہیں اور ہماری طرف کوئی رُخ ہی نہیں کرتا۔ وجہ وہی ہے کہ بے پناہ قدرتی حسن کے باوجود ہم اپنے سیاح کو سوائے کڑاہی گوشت کے کچھ بھی آفر نہیں کرتے۔ ٹورازم ایک پورا کلچر ہے جو ہمارے ہاں مفقود ہے۔ دوسری طرف دنیا کے وہ ممالک ہیں جن کے پاس اُن وسائل کا عشر عشیر بھی نہیں تھا جو ہمارے پاس ہیں، لیکن اُن ممالک نے ڈسپلن، انتھک محنت، شفاف طرز حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے اصول اپنا کر ہماری آنکھوں کے سامنے ترقی کے زینے پھلانگے۔
ہماری آئینی شاہراہ بھی مری کی سڑک کی طرح ہے، پہلے اِس شاہراہ میں جا بجا گڑھے ہوتے تھے، کہیں کوئی حفاظتی بند نہیں تھا، جس آمر کا جب جی چاہتا اپنے بڑے منہ والی ویگن سے اوور ٹیک کرکے گاڑی آگے نکال لے جاتا جس کے نتیجے میں قانون کے مطابق چلنے والی گاڑیاں کھائی میں گر جاتیں۔ ڈیوٹی پر متعین اہلکار یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے مگر نظریہ ضرورت کے تحت چپ رہتے۔ پھر دھیرے دھیرے وقت تبدیل ہوا، آئینی شاہراہ کی مرمت کرکے اسے بہتر بنایا گیا، اس کی کارپٹنگ کی گئی، اس کے کناروں پر حفاظتی بند باندھے گئے، شاہراہ پر چلنے والوں نے آپس میں معاہدہ کیا کہ کوئی کسی کو غیر قانونی انداز میں اوور ٹیک نہیں کرے گا، ٹریفک اہلکاروں کے نئے دستے تعینات ہوئے جنہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ بھی اب نظریہ ضرورت کے تحت بڑے منہ والی ویگنوں کے اوور ٹیک کو برداشت نہیں کریں گے۔ یوں اب کافی عرصے سے آئینی شاہراہ پر کوئی بڑا حادثہ رونما نہیں ہوا۔ آج کل اس شاہراہ کی دوبارہ مرمت کی جا رہی ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ مرمت اتنی ضروری ہے کہ اگر کچھ عرصے کے لئے نظریہ ضرورت کے تحت شاہراہ کو بند بھی کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ٹریفک کو قانون کے مطابق رواں دواں رکھنے والے اہلکار البتہ مصر ہیں کہ یہ مرمت شاہراہ بند کئے بغیر بھی کی جا سکتی ہے کیونکہ قانون کے یہ پاسدار عرصہ دراز سے نظریہ ضرورت کو دفن کر چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس نظریے کی قبر کشائی کی نوبت نہیں آئے گی۔

تازہ ترین