• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو قومی نظریے کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم کی شکل میں ہمارے عظیم بزرگوں کی بے مثال تاریخی کامیابی کے بعد، پاکستان بھٹکی قوم کیسے بن گئی؟ ہماری تاریخ سے نکلا یہ سوال جتنا بڑا ہے، اس کا جواب اتنا ہی واضح ہے۔ قیام پاکستان کی صورت میں اللہ کی رضا (جو ہمارے اجتماعی منفی اعمال کے باوجود آشکار ہوئے جارہی ہے) یوں واضح ہوئی کہ شروع میں ہی مستقبل میں غلبہ پانے والے عالمی سیاسی رجحانات کے مطابق مسلمانان ہند کو ارفع معیار کی ایسی باعمل قیادت میسر آئی جس کی سیاست، صداقت اور امانت سے عبارت تھی، جسے سرسید احمد خان اور اقبال جیسے دوربیں (وژنریز) کی جلائی علمی و سیاسی شمع نے وہ راہ دکھائی کہ اس پر چلتے حضرت قائداعظم نے مسلمانان ہند کا ایسا قافلہ آزادی تشکیل دیا جوبااثر اہل قلم و کلام پر مشتمل تھا، یہ آل انڈیا مسلم لیگ کا ایسا ہی معاون بنا جیسے آج جے آئی ٹی، سپریم کورٹ آف پاکستان کی بنی ہے۔ پیغام قائد پر بنگال تاخیبر مسلمانوں نے اسی طرح لبیک کہا جس طرح آج پوری قوم، کیا سول اور کیا افواج ، کیا شہری اور کیا دیہاتی، کیا اپوزیشن اورکیا حکومت، مدعی بھی حتیٰ کہ ملزمان بھی سب یکجا ہو کر، پاناما کیس کی سماعت (یا ہماری تاریخ میں پہلے مطلوب احتساب) کے حوالے سے سپریم کورٹ کو اپنے اعتماد سے نواز رہے ہیں، سیاسی کھلنڈروں کا رویہ اپنی جگہ کہ پولیٹکل گرومنگ کا اپنا اپنا معیار، ن لیگ بھی بطور سیاسی جماعت اس سے انکاری نہیں کہ وہ پاناما کیس پر عدلیہ کا فیصلہ مانے گی۔ شکر ہے اس کے ذمہ داروں کو کچھ سبق ملا ہے، لہٰذا سپریم کورٹ کے باہر آلودہ سیاسی ابلاغ سے جو دھول دوران تفتیش وسماعت اڑائی جاتی رہی، آج اس کے برعکس حکمران جماعت بطور پارٹی عدالتی احکامات کی تابعداری کرتی معلوم دے رہی ہے ۔ یہی صراط مستقیم اور مطلوب اصلاح کا ذریعہ ہے۔دیر آید درست آید۔
وہ سوال اپنی جگہ ہے کہ ہم بھٹکی قوم کیسے بنے؟ ایسے کہ حضرت قائداعظم اور شہید ملت لیاقت علی خان کے بعد ہمیں کوئی اہل سچی، مخلص اورایمان دار قیادت نصیب نہ ہوئی۔ یہ حادثہ نومولود مملکت کے ابتدائی سالوں میں ہی ہوگیا۔ نئے ملک کی آزاد فضا میں اقتدار و اختیار کے لالچ کا مارا ایک ٹولہ اور ان کے حواریوں کے چھوٹے چھوٹے قافلے تیار ہوگئے۔ عوام سیاسی عمل سے دور ہوتے گئے۔ اگلا نصیب آمریت میں دھت مارشل لائی یا پھر سازشی، نااہل، کرپٹ حکمرانوں کی طویل یا جلدی جلدی تبدیل ہونے والی حکومتیں رہیں۔ ہمارے بے سمت عوام ان کی حمایت و مخالفت میں تقسیم در تقسیم ہوتے گئے۔ یوں پاکستان بنانے والوں کی اولاد اور آنے والی کتنی نسلوں کو کیا سے کیا بنا دیا گیا، اور وہ بیچارے بنتے گئے کہ ان کے پاس ابتدائی قائدین پر اعتماد خلوص اور فقط وطن سے محبت کے سوا کچھ نہ تھا۔ اوپر سے نئے وطن کی ان گنت مشکلات۔
آج پھر پاکستان جبکہ اپنے قیام کے آٹھویں عشرے میں داخل ہونے کو ہے، کوئی ایک عشرہ قبل آزاد عدلیہ کی تحریک سے بیداری کی جو لہر آئی اور اس سے میڈیا کی نتیجہ خیز معاونت کے جو نتائج نکلے، اطمینان بخش درجے پر بالائی عدلیہ کا قیام ممکن ہوا، عشروں میں عوام دشمن طاقت پکڑتے اسٹیٹس کو کے غلبے کے باوجود پاکستانی قوم اتنی ضرور راہ راست پر آگئی کہ اب اس کا شعور اتنا بلند ہے کہ وہ حقیقی جمہوریت کی منزل کے حصول کے لئے ٹاپ ٹو ڈائون احتساب (جو بالائی طبقے کا سختی سے ہوتا ہوتا نیچے آتا جائے اور اس کی سختی میں بمطابق کمی آتی جائے) گویا پاناما کیس سے پہلے نفاذ قانون کے برعکس، جس میں کمزور ترین عوامی طبقے پر فوری اور سخت نفاذ اوپر کی جانب کمزور پڑتا پڑتا حکمران طبقے تک تو کیا ان کے حواریوں اور درباریوں سے نچلی سطح تک کمزور ہی نہیں ختم ہی ہو جاتا ہے۔ اب بھی بائی ایٹ لارج یہی صورت ہے، تاہم پاناما کیس بنتی تاریخ میں سنگ میل (Turning Point) بنتا معلوم دے رہا ہے۔
یہ تو ہونا ہی تھا کہ اگر اس بار (2008 سے شروع ہونے والے عشرے) میں بھی ہمارے سول حکمرانوں کی حکمرانی، جمہوریت (فقط) برائے انتخاب و تشکیل حکومت، آئین کا ادھورا اور قانون کا مختلف طبقات پر غیر مساوی نفاذ، پارلیمنٹ اتنی بے جان، طاقت کا سرچشمہ صرف دو خاندان، سیاست برائے تجارت، کرپشن نئی اشکال میں وسیع تر، ترقیاتی عمل کی پارٹیسپڑی اپروچ سے یکسر محرومی اور اس پر حکمران طبقے کی اجارہ داری پھر اتنی بیڈگورننس؟ مسلسل عدالتی احکامات پر بلدیاتی انتخابات کا اتمام حجت لیکن ان کے بمطابق آئین مطلوب اختیارات سے روایتی حکومتوں کا مسلسل انکاری، جیسے سوالات میں لپٹی ہوگی، تو اتنے عوامی شعور، تمنائوں اور میڈیا کی بیباکی نے کوئی تو راستہ نکالنا تھا ہی، آج پاکستان کی اولین قومی ضرورت ’’آئین کا مکمل اور قانون کا سب شہریوں پر یکساں نفاذ‘‘ پورا ہونے کا آغاز تو ہوا۔ امر واقعہ ہے کہ اس اولین قومی ضرورت کے لازمے کو بھی قوم کے ایک بڑے حصے، اتنا بڑا، جو روایتی حکمرانوں کے جامد رویے، بیڈگورننس اور اس سے پیدا ہونے والے قومی ڈیزاسٹر بشکل بدترین سماجی ناانصافی، کی مسلسل نشاندہی کرنا سراپا احتجاج بنا ہا۔ اسی صورت میں ٹاپ ٹو ڈائون احتساب پاکستان کو مطلوب جمہوریت سے جڑ کر اس کا لازمہ بن کر ناگزیر ہوگیا۔ جب خلق خدا کی کمزور سکت یا گمراہی کے باوجود کوئی ایک جماعت یا ایک سیکشن اور سوسائٹی حصول انصاف کے لئے کمر باندھ لے تو ناممکن سمجھا جانے والا مطلوب ناگزیر ہو جاتا ہے جیسے اسی نظام بد اور اسٹیٹس کو سے مطلوب معاشرے میں صدائے حق بلند ہوتی رہی تو یہ کمزور اور بے نتیجہ نہ رہی بالآخر اسے اللہ کی تائید ہوگئی۔ پاناما نازل ہوگیا۔
ان سطور میں مسلسل واضح کیا گیا کہ پاکستان کی موجود اور بڑھتی کیفیت میں اب قدرت ہی کوئی راستہ بالآخر جائے گی اور مطلوب جمہوریت کے لئے ان ہونی، ہونی ہو کر رہے گی، جو ہوگئی۔ پاناما جیسے آیا جتنی دور سے آیا تب آیا جب حکمرانوں کے بینی فشری حواریوں اور مایوسی میں ڈوبوں کا بیانیہ ’’کچھ نہیں ہوسکتا‘‘ بے پناہ طاقت پکڑ چکا تھا، یہ تو آٹھ نو سال میں ثابت ہوگیا تھا کہ میڈیا کی بیباکی، عدلیہ کی آزادی اور اس کے واضح ثبوت، پارلیمانی طاقت میں کچھ چٹخ پٹخ احتساب برائے حقیقی جمہوریت اور 20کروڑ عوام کو بمطابق آئین سماجی انصاف کی فراہمی کے لئے پائی جانے والی تڑپ کے باوجود ’’کچھ نہیں ہوسکتا‘‘ کا نظریہ ہی عملاً غالب ہے لیکن پاناما کیس کا نزول اور اس کے بعد جو کچھ ہوگیا، ہورہا ہے اور ہوتا نظر آرہا ہے، یہ سب واضح اشارے ہیں کہ بھٹکی پاکستانی قوم جانب منزل چل پڑی ہے۔ پاناما کیس کے فیصلے سے ’’آئین کے مکمل اور قانون کے یکساں نفاذ‘‘ کا عمل شروع ہوگیا پاکستان (ان شاء اللہ) ایک عشرے میں ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ بمطابق آئین بن جائے گا۔ یہ سفر اتنا تیز تر ہوگا کہ عشروں کے عوام پر ظالم اور سفاک حکمرانوں کے ظلم و زیادتیوں کا ازالہ بے رحم لیکن بالائی سطح پر محدود احتساب سے سالوں میں ہی طے ہو جائے گا۔ اللہ اکبر۔

تازہ ترین