• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اپنے قیام کے وقت سے امریکہ کے ساتھ ہے۔ اسے امریکہ کا دوست یا اتحادی نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ پاکستان امریکی بلاک یا کیمپ میں شامل رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کو کوئی بھی نام دیا جائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان تعلقات میں اعتماد کا ہمیشہ فقدان رہا ہے۔ پاکستان نے امریکہ کے لئے اپنا وہ سب کچھ قربان کیا، جن کا قومیں ہر حال میں تحفظ کرتی ہیں ۔ اس کے باوجود امریکہ نے نہ صرف پاکستان سے ’’ ڈومور ‘‘ ( Do More ) کا مطالبہ کیا بلکہ عالمی برادری میں پاکستان کے کردار کو ہمیشہ مشکوک بنایا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان ایک ناقابل اعتبار ملک ہے ۔ دہشت گردی پر امریکی محکمہ خارجہ کی 2016 کی رپورٹ میں بھی امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی نہیں کر رہا ہے اور دہشت گرد اپنی کارروائیوں کے لئے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں ۔
امریکہ کا یہ الزام کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امریکہ اس طرح کے الزامات سے پاکستان پر دباؤ ڈال کر اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے لیکن آج کل امریکہ جو الزامات عائد کر رہا ہے، انہیں امریکی معمول سے تعبیر نہ کیا جائے۔ اس وقت صورت حال بالکل مختلف ہے۔ پاکستان نے اگرچہ امریکی کیمپ سے نکلنے کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان امریکی کیمپ میں نہیں رہا ہے۔ پاکستان نے اپنی پوزیشن شفٹ کر لی ہے۔ چین اور روس کے ساتھ مل کر پاکستان علاقائی اور عالمی سطح پر نئی صف بندیوں کے لئے کوشش کر رہا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پاکستان کے لئے اس تبدیلی کا سب سے اہم سبب ہے لیکن بعض دیگر اسباب کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ کو بھی اس تبدیلی کا مکمل ادراک ہے لیکن ہمیں شاید اس بات کا مکمل ادراک نہیں ہے کہ امریکہ اس کی پاکستان کو کیا ’’سزا‘‘ دے سکتا ہے۔
یہ پاکستان کے لئے بہترین موقع ہے کہ وہ امریکی کیمپ سے نکل جائے لیکن ایسا کرتے ہوئے اسے امریکہ مخالف صف بندی میں انتہائی کردار ادا کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ پاکستان کو اپنی غیرجانبدارانہ حیثیت تسلیم کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات سے بھی ہوشیار رہنا ہو گا کہ امریکی اشاروں پر نہ چلنے کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ پاکستان کا موجودہ داخلی اور سیاسی بحران پاکستان کے خلاف نئے امریکی منصوبے کے کچھ پہلوئوں کو اجاگر کر سکتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی حالیہ رپورٹ میں عائد کردہ الزامات کو اس نئے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے عالمی مفادات کے لئے پاکستان نے اتنا آگے بڑھ کر کردار ادا کیا، جو کسی خود مختار قوم کو زیب نہیں دیتا۔ سرد جنگ کے زمانے میں اشتراکی یلغار کو روکنے کے لئے پاکستان نے سرمایہ دارانہ بلاک کے فوجی اتحادوں میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کیا ۔ پاکستان نے 1954 ء میں ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن سیٹو (Seato) میں شمولیت اختیار کی حالانکہ اس فوجی اتحاد میں جنوبی ایشیا کے صرف دو ملک فلپائن اور تھائی لینڈ شامل تھے۔ ان کی شمولیت بھی برائے نام تھی۔ دیگر ملکوں میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا شامل تھے، جن کا جنوبی ایشیا سے کوئی تعلق نہ تھا۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان واحد ملک تھا، جو سوویت یونین کے اثرورسوخ کو روکنے کے لئے مغربی طاقتوں کے فوجی اتحاد میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کر رہا تھا۔ 1955 ء میں پاکستان معاہدہ بغداد میں شامل ہوئے، جسے بعد ازاں سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن ( سینٹو ) ( Cento) کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کا بھی یہی مقصد تھا کہ اشتراکی یلغار اور سوویت یونین کے اس خطے میں اثرات کو روکا جائے۔ سینٹو میں ایران ، عراق ، ترکی اور برطانیہ شامل تھے۔ بعدازاں امریکہ بھی اس میں شامل ہوگیا۔ عراق 1958ء میں اس معاہدے سے نکل گیا اور اس نے سوویت یونین سے دوستانہ تعلقات استوار کر لئے چونکہ یہ معاہدہ بغداد میں ہوا ۔ عراق کے اس معاہدے سے نکل جانے کے بعد نہ صرف معاہدے کے نام سینٹو رکھا گیا بلکہ اس کا ہیڈ کوارٹرز بغداد سے انقرہ منتقل کر دیا گیا ۔ سرمایہ دارانہ بلاک کے سامراجی ممالک کے اس فوجی معاہدے میں بھی پاکستان کا کردار سب سے زیادہ اہم تھا ۔ سیٹو 1977 ء اور سینٹو 1979 ء میں عملاً ختم ہو گئے تو امریکہ نے پاکستان کو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں براہ راست جھونک دیا اور آج تک پاکستان اس جنگ سے نہیں نکل سکا ہے ۔ پاکستان اگرچہ معاہدہ شمالی بحراوقیانوس یعنی نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن ( نیٹو ) کا حصہ نہیں ہے لیکن افغانستان میں نیٹو فورسز سے زیادہ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں براہ راست حصہ لیا اور دہشت گردوں نے بھی سب سے زیادہ پاکستان کو نشانہ بنایا ۔
تقریباً 6 دہائیوں سے پاکستان امریکہ اور اس کے سامراجی اتحادیوں کے لئے باقاعدہ حالت جنگ میں ہے اور امریکہ مسلسل پاکستان کی وفاداری پر شک کا اظہار کر رہا ہے ۔ اس دوران امریکہ نے مشکل حالات میں خصوصاً بھارت کے ساتھ جنگ یا کشیدگی کے حالات میں پاکستان کا نہ صرف ساتھ نہیں دیا بلکہ پاکستان کو دھوکہ دیا ۔ اسی عرصے میں نہ صرف اشتراکی بلاک پاکستان کو اپنا دشمن نمبر ایک تصور کرتا رہا بلکہ غیر جانبدار ممالک میں بھی پاکستان اپنا اعتبار قائم نہ کر سکا ۔ جنرل ایوب خان کی کابینہ کے نوجوان رکن ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو سامراجی کیمپ سے نکالنے کے لئے کئی ڈرامائی اقدامات کیے اور پاکستان کو چین کے قریب کر دیا ۔ سرد جنگ کے زمانے میں چین اگرچہ اشتراکی بلاک کا اہم اور طاقتور رکن ملک تھا لیکن امریکیوں کے نزدیک چین اشتراکی بلاک کے سرخیل سوویت یونین کی پالیسیوں سے مکمل اتفاق نہیں کرتا تھا ۔ اس لئے سرمایہ دارانہ بلاک میں چین کے لئے نرم گوشہ تھا ۔
اس کے باوجود یہ بات امریکہ کو برداشت نہ ہوئی کہ پاکستان چین کے ساتھ تعلقات استوار کرکے امریکہ پر اپنا انحصار کم کرنے لگے۔ اس کی سزا نہ صرف بھٹو کو ایوب کابینہ سے نکال کر دی گئی بلکہ ایوب خان کے خلاف بھی تحریک میں امریکی کردار کے ثبوت اب سامنے آ گئے ہیں ۔ یحییٰ خان کے دور میں پاکستان کو مزید سزا دی گئی ۔ سقوط ڈھاکا کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو غیر جانبدار تحریک کا قائدانہ کردار دلوانے کی کوشش کی اور چین کے ساتھ روابط کو مزید گہرا کیا ۔ بھٹو نے سوویت یونین کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنائے ۔ بھٹو کے ساتھ جو کچھ ہوا ، وہ تاریخ کا حصہ ہے ۔ بھٹو کے بعد پاکستان امریکی مفادات کی جنگ سے نکل ہی نہیں سکا اور اپنی تاریخ کی سب سے زیادہ خونریزی اور تباہی کا شکار ہوا ۔
چین اب نئے عالمی کردار کے ساتھ سامنے آیا ہے ۔ وہ ’’ ایک پٹی ایک شاہراہ ‘‘ کے تصور کے ساتھ دنیا پر فوجی نہیں بلکہ اقتصادی بالادستی قائم کرنے کا واضح اعلان کر چکا ہے ۔ وہ نہ صرف اس خطے میں بلکہ پوری دنیا میں نئی صف بندی کے لئے اپنی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے ۔ سرد جنگ کے زمانے میں چین کو روس ( سوویت یونین ) کا جونیئر پارٹنر تصور کیا جاتا تھا لیکن اب صورت حال اس کے برعکس ہے ۔ چین کو اب قائدانہ کردار حاصل ہو گیا ہے ۔ چین ایک نئی سامراجی طاقت کے طور پر روایتی سامراجی طاقتوں کو للکار رہا ہے اور پاکستان نے اپنی پوزیشن واضح طو رپر تبدیل کرکے چین کے کیمپ میں جانے کا اشارہ دے دیا ہے۔ امریکہ کے پاکستان کے بارےمیں بیانات کو معمول کے بیانات تصور نہیں کرنا چاہئے ۔ پاکستان کو ایک نئی اور غیرمتوقع صورت حال کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ پاکستان کا موجودہ داخلی سیاسی بحران بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں انتہائی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔

تازہ ترین