• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بستہ الف والوں کا بستہ نمبر 10کھل گیا
بڑی خبر:والیم 10کھل گیا، فیصلہ محفوظ، ہم اس مغالطے میں رہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے انسان کر رہا ہے، جو بھی ہو رہا ہے وہ درحقیقت اللہ کی ذات اقدس کر رہی ہے، عدالت، عدل کے تقاضوں کو پورا کر رہی ہے یہ نہیں دیکھ رہی کہ مدعی کون ہے مدعا علیہ کون ہے، آخر ہم سے کہیں دس نمبری ہوئی ہے جو بستہ نمبر 10کھلا ہے، کیا ہم من حیث القوم بستہ الف سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے دس دس بستے رکھتے ہیں اپنے سربستہ اعمال و افعال کے، فیصلہ کر کے اسے محفوظ کر لیا گیا ہے اور مناسب وقت پر صادر کر دیا جائے گا، اب بھی قیاس و اندازے سے کام لینے کے بجائے سب کو اپنا اپنا کام کرنا چاہئے، کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ کہیں دور ڈھول بج رہا ہو اور کوئی عبداللہ دیوانہ اپنی چھت پر بھنگڑا ڈال رہا ہو، مگر ہمارے ہاں دور کی کوڑی لانا، سامنے پڑی چیز کو نہ دیکھنا ایک وتیرہ بن چکا ہے، بے مقصد ہجوم محض جھاگ ہے ایک شادی ہال کے مالک نے بتایا یار کاروبار میں بہت مندی ہے، لوگوں نے پاناما کی وجہ سے شادیاں روک رکھی ہیں، میں نے کہا یار اس وقت سے ڈرو جب لوگ ایسے ہی کسی موقع پر سانس بھی روک لیں گے
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
یہ بھی سنا ہے کہ ایک مقام پر ایک بچی کا نام پاناما رکھ دیا گیا ہے، کہیں پاناما ریاست کے حکمران بچی کے باپ کو طلب نہ کر لیں، دنیا میں سب سے سستی توجہ ہماری ہے، کہ کہیں دس بندے اکٹھا ہوں تو ہم بھی وہاں کھڑے ہو جاتے ہیں، ایسا وہ قومیں کرتی ہیں جن کا کوئی مقصد کوئی منزل نہیں ہوتی، آج جسے دیکھو حکمرانوں کا گلہ کرتا ہے حالانکہ 70برسوں سے ہر حکمران ہم خود لاتے، سنگھاسن پر بٹھاتے اور پھر اس کے گرد ماتم شروع کر دیتے ہیں، جمہوریت بیچاری یہاں آ کر بھی نہیں آئی ۔
٭٭٭٭
لوگ آسان سمجھتے ہیں حکمراں ہونا
جب سے مسلم امہ میں حکمرانی کو ایک اعلیٰ ترین کوالی فیکیشن، برتری اور سراپا اقتدار سمجھا گیا زوال امت کے آثار شروع ہو گئے، حالانکہ
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں ’’حکمراں‘‘ ہونا
حکمراں ہونا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، اور اس میں احتساب، پوچھ گچھ یہاں بھی اور وہاں بھی کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں، بلکہ حکمرانی کا اسلامی یا انسانی تصور تو گراس روٹ لیول سے شروع ہوتا ہے، حضور دانائے راز ﷺ نے اسی لئے فرمایا:تم میں سے ہر ایک حکمران ہے اور اپنی رعیت بارے پوچھا جائے گا، حکمران کا اصل مفہوم محافظ ہے، جیسے چرواہا اپنے ریوڑ کی حفاظت کرتا ہے جو بھی کسی پر محافظ مقرر کیا گیا ہے وہ اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے، مگر بدقسمتی سے جب ہمارے ہاں خلافت میں ملوکیت کا پیوند لگا تخت و تاج اور عیش و عشرت کے خواب نظر آنے لگے، جس کے پاس بھی کردار، علم، امانت و دیانت کے علاوہ صرف دولت کی فراوانی آئی اس نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ اب انسانوں پر حکومت کرنے کا منصب حاصل کرنا بہت ضروری ہے، جب تصور یہ بنا تو اسلام، جمہوریت اور اعلیٰ اقدار سیاست و ریاست کے ہوتے ہوئے کوئی عادل و صالح حکمران ہمیں نصیب نہ ہوا، یہ سلسلہ زور پکڑ گیا، اور حصول دولت کی ہوس بھڑک اٹھی صرف اس لئے کہ کسی طرح پیسے کے زور پر اقتدار حاصل کیا جائے اور اس کے گونا گوں مزے لوٹے جائیں اور غلط طرز حکمرانی ایک ذہنیت بن گئی، امانت و دیانت کا وہ معیار جو اسلامی حکمرانوں نے دو چراغ رکھ کر قائم کیا تھا وہ برقرار نہ رہ سکا پھر خلافت راشدہ کے خاتمے سے انحطاط شروع ہوا، ہلاکو یلغار کا سبب بنتے ہوئے مغلوں کے زوال پر بھی نہ رکا پاکستان کے وجود میں بھی دَر آیا اور آج ہمارے پاس سب کچھ ہے گڈ گورننس نہیں، جس دین نے رنگ، نسل، ذات ، پات، اقربا پروری، برادری ازم اور مطلق العنانی کو شجر ممنوعہ قرار دیا اس کے ماننے والوں نے ان تمام ممنوعات کو تبرکات جان کر سینے سے لگا لیا۔
٭٭٭٭
خدا پرستی چھوڑ کر شخصیت پرستی؟
ہیرو ور شپ وہ بیماری ہے جس نے قوموں کے عروج کو چاٹا اور زوال کی فصل بو دی، یہی فصل پک کر تیار ہوئی تو اس نے انسان کا نظام انہضام برباد کر دیا اور یہ فوڈ پوائزننگ اتنی عام ہوئی کہ معاشرہ قے خانہ بن گیا، ہم دور نہیں جاتے اپنے ملک ہی کو دیکھ کر اندازہ کر سکتے ہیں کہ کسی کی صورت پرستی میں مست رہے اور اس کی سیرت کے ہر گناہ کو دل و جان سے قبول کر لیا، اگر دیکھا جائے تو آج ہمارے تمام مسائل کا باعث یہی شخصیت پرستی ہے، ہر شخص نے اپنے دل و دماغ کو بت کدہ بنا کر اس میں نہایت خوبصورت بت سجا رکھے ہیں، یہ پتھر کے صنم بھلا سنگ باری کے سوا کیا ہو سکتے ہیں، 70برسوں سے ہم نے بھی کتنے ہی پتھر تراش کر مجسمے بنائے اور ان کے گرد طواف کرتے رہے، حرف کو نیچا دکھانے میں کچھ نہ کام آئے تو اسے مذہب کی مار مارتے ہیں، اور اس طرح دین کو بھی اپنی ہوس کے تابع بنا لیا، یہ بات کوئی نہ سمجھا کہ شخص نہیں شخصیت اچھی یا بُری ہوتی ہے، جاگیردار سرمایہ دار بُرا نہیں ہوتا جاگیر دارانہ و سرمایہ دارانہ سوچ بُری ہوتی ہے، اور یہیں سے خدا کی زمین پر ظلم جنم لیتا ہے بری ذہنیت بُری سوچ کو صالح بنانے کا سارا دارومدار مکتب و معلم پر ہوتا ہے، ہم نے علم کی ناقدری کی اور پاتال میں گر گئے، جو قومیں بہت بُری سمجھی جاتی تھیں، انہوں نے تعلیم کا دامن پکڑ لیا، اہل علم و دانش کی قدر کی، سونے چاندی کے سکوں پر حصول علم کو ترجیح دی، اور اسی کو معیار بنایا وہ آج ہم اسلام جیسا عظیم اور مکمل نظام حیات رکھنے والوں سے بازی لے گئے، وہ قرضے مانگنے نہیں دیتے ہیں، ان کا ہاتھ اوپر ہے ہمارا نیچے، آخر کیوں؟ جواب تو ہم نے سادہ لفظوں میں عرض کر دیا، انسان کی قدر و قیمت سے زیادہ امیری و کروفر کو عزت حاصل ہے، امیر کے لئے راستہ چھوڑ دیا جاتا ہے غریب کو کوئی رستہ نہیں دیتا یہاں تک کہ اسے کوئی رشتہ نہیں دیتا، جب تک مساوات قائم نہ ہو گی ہم اونچ نیچ سے ٹکراتے ٹکراتے قبروں میں اترتے رہیں گے۔
٭٭٭٭
نوحۂ پریس کانفرنس ہی سہی
....Oشیخ رشید6:بار وزیر رہ چکا ہوں۔ ججز:آپ یہ بات کئی مرتبہ بتا چکے ہیں۔
شکر کریں کہ وہ ساتویں بار وزیر نہیں بنے، ورنہ وہ یہ نہ کہتے 6بار وزیر رہ چکا ہوں،
ترجمان وزیراعظم ہائوس:نامکمل تفتیش پر فیصلہ کیسے آ سکتا ہے،
ہمارا خیال ہے یہ روز محشر کی تفتیش ہی کو مکمل مانیں گے،
....Oطاہر القادری:پاناما کیس میں کرپٹ وزیراعظم بچ گئے تو نظام کی بربادی ہو گی،
کیا بربادی ہنوز باقی ہے۔
....Oمریم اورنگزیب:بنی گالہ میں جھوٹا تماشا لگا کر عوام پر اثر نہیں ڈالا جا سکتا۔
مگر سپریم کورٹ تو بنی گالہ میں نہیں،
....Oخواجہ آصف:وزیراعظم کہیں نہیں جا رہے موجودہ بحران سے بھی نکل جائیں گے۔
ہم تو پہلے ہی کہتے رہے کہ وہ قسمت کے دھنی ہیں۔
....Oچوہدری نثار آج ہنگامہ خیز پریس کانفرنس کریں گے،
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے نثار کی رونق
نغمۂ شادی نہ سہی نوحۂ پریس کانفرنس ہی سہی

تازہ ترین