• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

minhajur.rab@janggroup.com.pk

بھوک، افلاس، غربت یہ وہ الفاظ ہیں جن کوسن کرانسان جذباتی طو رپر ؕنرم پڑجاتا ہے۔ پاکستان شاید دنیا کا ایسا واحدملک ہے جہاں خیرات وصدقات کی بدولت ایک بڑی تعداد دولت کی تقسیم کی جاتی ہے۔اور پیسہ امیروں سے غریبوں تک منتقل ہوتا ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے راقم کے ساتھ کچھ ایسے واقعات ہوئے جن کی بدولت راقم کی رائے " غربت" کے بارے میں تبدیل ہونا شروع ہوئی۔ ذاتی رائے سے آگاہی سے پہلے راقم ان واقعات سے آپ کو بھی آگاہ کرناچاہتا ہے۔جب سے کراچی میں مختلف فلاحی اداروں کی طرف سے " کھانے کے دسترخوان" لگنا شروع ہوئے ہیں۔ اور اگر کوئی فقیر مین روڈ پر کھڑا ہوکر مجھ سے اپنی بھوک کا ذکر کرتا ہے۔ تو میں اس سے کہتاتھا کہ یہیں تودسترخوان لگتا ہے کھانا کیوں نہیں کھالیتے؟عموماً یہ بات سن کر وہ فقیرآگے چلے جاتے یایہ کہتے کہ نہیں ہم یہ نہیں کھاتے ۔لیکن جب ایک فقیرنے مجھے جواب دیا کہ " ان کا کھانا اچھا نہیں ہوتا" ۔میں تو یہ جواب سن کر دل ہی دل میں مسکرایاکہ ایک اب " ذائقے کی تلاش" ہے! پیٹ توبھرا ہوا ہے۔پچھلے دنوں بچوں کے ساتھ شمالی علاقہ جات جانا ہوا۔ ایک دن ناران کے ہوٹل میں بیٹھے کھاناکھارہے تھے کہ ایک بچے نے بھیک مانگی۔ میں نے اس سے پوچھا تم کہاں کے ہو تو اس نے اپنا تعلق پنجاب سے بتایا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ اتنی دیر میں ایک ضیف بھکارن آئی اس نے جب پنجابی انداز میں بھیک مانگی تو میں نے پوچھاکہاں کی رہنے والی ہو؟ اس نے جواب دیا ملتان کی۔میں نے پوچھا کہ اتنے دور کیسےآگئیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ ملتان میں گرمی بہت ہے اس لیے بھیک مانگنے یہاں(ناران) آگئے یہ جگہ ٹھنڈی ہے۔۔۔۔۔۔ذرا سوچئے کیا جس کے پیٹ میں روٹی نہ ہو اور بھوک وافلاس کا شکار ہو وہ ایک گرم علاقے سے طویل سفر کرتے ہوئے ٹھنڈے علاقے جاسکتا ہے؟ یا بھوکے انسان کو ذائقے کی تلاش ہوسکتی ہے؟اسی طرح کہ کتنے واقعات ہیں کہ کھانا دیا تو اسے پھینک دیا، پیسہ دیا تو رکھ لیا، ہوٹل سے کھانا دلوایا تو واپس کرکے پیسے لے لیے۔ کیا غربت، افلاس اور بھوک میں یہ سب کچھ ممکن ہے؟نہیں ہرگز نہیں۔ اب بھوک کا کہہ کر جذباتی کیا جاتا ہے۔ تاکہ ہاتھ میں پیسے آئیں۔ اگر نشہ کرنے والوں کو دیکھیں تو نشے کا استعمال مزید بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ کھاناسب کو میسر ہے۔ (مفت دسترخوان کی بدولت) ۔لہذا کھانے کے لیے تو کمانا نہیں ہے۔ صرف نشے کی لذت پوری کرنے کے لیے کمانا ہے۔ اسی طرح گداگروں کوبھوک نہیںبلکہ دوسری اشیاء کی خریداری کے لیےپیسے چاہئیں۔کراچی سے کشمیرتک، کشمیر سے ناران، گلگت بلتستان اور سوات سب جگہ بجلی پہنچائی جاچکی ہے۔ ہر جگہ سیاحت کے مواقع موجود ہیں۔ جگہ جگہ ہوٹلز قائم ہیں۔ ٹرانسپورٹ ایک بڑا کاروبار بن چکا ہے۔ قدرتی پھل، ڈرائی فروٹس اور جڑی بوٹیاں الگ کمائی کاذریعہ ہیں۔ آب وہوا اچھی ہونے کی وجہ سے بیماری کے خدشات بہت کم ہیں۔ ٹیکس کی مکمل چھوٹ ہے۔ ایسے میں بھوک وافلاس جسے absolute poverty کہتے ہیں۔ کہ امکانات نہیں رہتے۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی حالات بہتر ہوتے جارہے ہیں۔ بجلی پہنچ چکی ہے اور کھانے پینے کی چیزیں سستی اور اچھے معیار کی ہیں۔ توایسے میں غربت کاپرچار کس لیےrelative poverty ہوسکتی ہے۔ لیکن absolute povertyکے اثرات بہت کم ہیں۔ورلڈبنک کے معیار کے مطابق ایک دن میں اگر ایک شخص کو دو ڈالر نہیں ملتے تو وہ غربت کی لکیرسے نیچے چلاجاتا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ رقم شہری علاقوں کے لیے ہے۔ جہاں قیمتیں زیادہ ہیں۔ دیہی علاقوں اور چھوٹے شہری، شمالی علاقے جات میں قیمتیں انتہائی کم ہیں۔ اور وہاں لوگ اپنی بنیادی ضروریات (روٹی ، کپڑا، مکان۔دوا) بآسانی دوڈالر سے کم پہ حاصل کرلیتے ہیں۔ ایسے میں غربت کی کہانی سنانا اور بھوک وافلاس کے نام پہ پیسے اکھٹاکرنا ہماری عادت بن چکی ہے آخر"مظلوم بننے "کے لیے کچھ تودکھاناہوتاہے۔

تازہ ترین