• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ پانامہ کیس کا جومعاملہ آج اٹھا ہے یہ بھی قدرت کی طرف سے اٹھا ہے اس کی وجہ سے پتہ نہیں کون کون سے معاملات اٹھیں گے، آپ دیکھیں گے کہ بہت سارے لوگ جو ابھی بڑے اطمینان سے بیٹھے ہیں اور جو کہتے ہیں یہ کرلیا وہ کرلیاان کاکچھ نہیں ہوسکتا۔ آپ دیکھئے گا کیسے کیسے لوگ پکڑے جائیں گے، میری بات یاد رکھئے گا، کوئی واقعہ دو ماہ بعد ہوگا، کوئی چار ماہ، تو کوئی چھ ماہ بعد تو کوئی ایک سال کے بعد ہوگا، یہ اللہ کا نظام ہے۔‘‘
ایوان صدر میں گوشہ نشین شخصیت کے روحانی اور وجدانی الفاظ شاید اُس وقت کسی کی سمجھ میں نہیں آئے اور عمومی طورپر باعث حیرت بننے والا یہ ’’روحانی پیغام‘‘ متعلقہ سیاسی حلقوں کے لئے ایک ایسی وارننگ تھی جو انہیں بھی سمجھ نہیں آئی آج یہ ’’روحانی پیغام‘‘ عملی شکل میں حقیقت بنتا نظر آرہا ہے، جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ اور سپریم کورٹ پاناما عملدرآمد کیس کافیصلہ محفوظ ہونے تک وزیراعظم نواز شریف کے استعفے کامطالبہ زباں زد عام ہے متحدہ اپوزیشن کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں ان کے خلاف ایکا کر چکی ہیں۔ وکلاء میدان میں ہیں، سوشل میڈیا سرگرم ہے، سول سوسائٹی چند تحفظات کیساتھ استعفے کا تقاضا کررہی تھی لیکن بات اب اس سے آگے نکل چکی ہے، پاکستان کو ایک بار پھر سنگین بحرانی صورت حال کاسامنا ہے، نظام زندگی ٹھپ ہو چکا ہے۔ ہرطرف ہنگامہ ہے۔ ہمارے قریبی چندبین الاقوامی دوست موجودہ صورت حال سے شدید پریشان ہیں خصوصاً سی پیک کے تناظر میں چین کی شدید فکر مندی جائز نظر آتی ہے۔ صورت حال یہاں تک سنگین ہوچکی ہے کہ برادر اسلامی ملک بھی کنی کترانے لگے ہیں۔ غیر ملکی سفارت کاروں نے اپنی حکومتوں کو ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی اپنانے کاپیغام بھیجا ہے اورکہا ہے کہ فی الحال پاکستان کا جمہوری نظام ڈول رہا ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ کسی قسم کی سفارتکاری یا کاروبار نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری سرحدوں پر دشمن تاک لگائے بیٹھا ہے اورہمیں بیجنگ سے واضح پیغام آرہاہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت ہوئی تو چین پاکستان کی درخواست پر جموںوکشمیر میں اپنی فوج داخل کرسکتا ہے۔ چین کے سنٹر فارانڈین اسٹڈیز کے ڈائریکٹر لانگ زنگ جین نے رائے دی ہے کہ یہ اقدام بالکل اسی طرز پر ہوگا جیسے بھوٹان کی درخواست پر بھارت نے چینی حدود میں داخل ہو کر کیا۔ کنٹرول لائن پر پاک بھارت کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ چین اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔ افغانستان میں پاکستان کے خلاف ایک نئی کھچڑی پک رہی ہے۔ درون پردہ امریکہ پاکستان کے لئے بہت سے ایسے فیصلے کر چکا ہے جو ہمارے لئے زہر قاتل ثابت ہوں گے۔ سوچنے سمجھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ ایسی صورت حال میں ملک کے اندر سیاسی انتشار کیوں اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا پانامہ کیس ہی نوازشریف کے اہل خانہ کو کٹہرے میںلانے کا باعث بن رہا ہے یااس کے پس منظر میںموجودہ حکومت کی تسلسل کے ساتھ جاری کوتاہیاں بھی ان کے گلے پڑ گئی ہیں۔ یقینا اس کے پیچھے بہت سے تحفظات بھی نظر آتے ہیں اور مقتدر حلقے موجودہ حکومت سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے دوران جو سیاسی حمایت چاہتے تھے وہ انہیں نہیں مل سکی۔ الزامات اور تحفظات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ دنیا ہم سے توقع رکھتی تھی کہ ہم دہشت گردی کی جنگ جیتیں گے، آگے بڑھیں گے کاروبار زندگی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ نوجوانوں کو لیپ ٹاپ ہی نہیں ملازمتیں بھی ملیں گی، انصاف ہوگا اور معیشت کو استحکام حاصل ہوگا مگر یہ سب کچھ ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہا۔ اگرچہ حکومت نے ملک میں ترقیاتی کاموں کی داغ بیل ڈالی، توانائی کے منصوبے شروع کئے، سی پیک پر حوصلہ افزا پیش رفت کی اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی لیکن ملکی دفاعی ضروریات اورتقاضوں کو بری طرح نظرانداز کیا۔ طالبان کا معاملہ ہو یا پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے معاملے کو عالمی سطح پر بھارت کے خلاف ٹھوس شواہد کے ساتھ اٹھانے کی بجائے مکمل خاموشی، ڈان لیکس سے لے کر بیرون ملک پیسے کی غیر قانونی ترسیل تک یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات موجودہ حکومت کے پاس بالکل نہیں۔ یہ کیسی حیرت کی بات ہے کہ میاں محمد نوازشریف کی حکومت سنگین سیاسی بحران کا شکارہو، آج گئے یا کل والی صورت حال ہو، دنیا ان سے رابطہ کرنے سے کنی کترا رہی ہو اورپیغام آرہا ہو کہ ’’ہم پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل پر مذاکرات کرنے کو تیار ہیں‘‘۔ سنجیدہ حلقوں کی فکر مندی واضح ہے مگر انہیں حوصلہ افزا جواب گزشتہ چار سال میں نہیں ملا تو اب کیسے ملے گا۔ پلوں سے پانی گزر چکا، دیکھنا یہ ہے کہ کس کس کی دیوار گرتی ہے اور کون کون کس کو بچاتاہے، فی الحال تو سب گرانے پر لگے ہیں بچانے کی فکر کسی کو نہیں، قوم ایک بار پھرامید و یاس کی کیفیت سے دو چار ہے اور آنے والے دنوں میں ایوان صدر کے گوشہ نشین درویش کی باتیں سچ ہوتی نظر آرہی ہیں۔ تیز ہوائوں آندھی طوفان کے موسم میں پاکستان کی سیاست بھی گرج برس رہی ہے، کئی سیاسی چھتیں گریں گی، بہت سارے منہ سر چھپائے پھریں گے، ایک ایسا سیاسی بھونچال منظر نامے میں ہے جس میں کل کے بہترین دوست آج کے سخت ترین حریف بنتے نظر آرہے ہیں، سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو چکا ہے خصوصاً نون لیگ میں نئی صف بندی کے واضح امکانات نظر آرہے ہیں، ہر ہاتھ میں ’’لوٹا‘‘ پکڑا نظر آرہا ہے۔ بظاہر یہ تمام سیاسی پہلوان ایک دوسرے کی سیاسی وکٹیں گرانے کے دعوے دار ہوں گے لیکن اللہ کی پناہ اس گوشہ نشین کے ’’روحانی پیغام‘‘ کا کیا کریں جو کہتا ہے کہ’’ آپ دیکھئے گا کہ کیسے کیسے لوگ پکڑے جائیں گے‘‘۔ یہ وہ صورت حال ہوگی جو شاید کسی کو بھی قابل قبول نہ ہو، پھر انسان کہتا ہے کہ اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

تازہ ترین