• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں14پولیس اہلکار شہید‘ دہشتگردوں کا سراغ لگانے میں ادارےناکام

کراچی( خالد محبوب/ اسٹاف رپورٹر)شہر میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن سےامن کی بحالی کے کچھ آثار نظر آنا شروع ہوتے ہیں تو دہشت گرد اچانک اور منظم طور پرکوئی بڑی واردات کر کےخوف ہراس پیداکردیتے اور نئی حکمت عملی کے تحت دہشت گرد پولیس کونشانہ بنارہے ہیں ، رواں سال یکم جنوری سے اب تک کورنگی، بہادر آباد اور سائٹ کے علاقے میں افسران سمیت 14سے زائد پولیس اہلکار دہشت گردوں کا نشانہ بنے ہیں، ان وارداتوں کے بعد ایک بھی دہشت گرد کاگرفتارہونا تو درکنارانٹیلی جنس ادارے یہ بھی پتہ لگانے میں ناکام ہیں کہ پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں کونسا گروپ ملوث ہے، جو انکی کارکردگی کا منھ بولتاثبوت اور المیہ ہے، پولیس کے اعلی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں جیل سے فرار ہونے والے کالعدم تنظیم کے دہشت گرد ملوث ہیں، پولیس کے اعلی افسران یہ کہہ کر اپنی جان تو چھڑالیتے ہیں کہ پولیس اہلکار ایس او پی کا خیال نہیں رکھتے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی پولیس کے تمام اہلکاروں کو اب تک بلٹ پروف جیکٹس فراہم نہیں کی گئی ہے جبکہ پولیس جدیداسلحےسے بھی محروم ہے، ڈھائی کروڑ آبادی کے شہرکے لئے صرف30ہزار کی نفری ہے جو وزراء، وی وی آئی پیز اور دیگر کی حفاظت پر بھی مامور ہے،تو کیا اعلیٰ پولیس افسران کی جانب سے ایس او پی کے احکامات پرعمل ممکن ہے،108 تھانوں کیلئے پولیس موبائل کی بھی کمی ہے اور جو دستیاب ہیں ان میں سے کئی دھکا اسٹارٹ ہیں جو دہشت گردوں کا آسان ہدف بھی بن جاتی ہیں۔

واضح رہے کہ سائٹ کے علاقے میں پولیس اہلکاروں کو ہوٹل میں کھانا کھاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا تھا ،جسکے بعد پولیس کے ہوٹلوں میں کھانا کھانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن حالیہ دنوں میں ایک نیا رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ پولیس خصوصا خواتین افسران ایس پی، ڈی ایس پیز اور تھانہ انچارج شہر میں نام نہاد تنظیموں کی جانب سے منعقدہ ایسی تقاریب میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کرتے ہیں، جو دہشت گردوں کا آسان ہدف بن سکتی ہیں، آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی کراچی کو اس صورتحال کا فوری نوٹس لے کر پولیس افسران کے ایسی نجی تقاریب میں شرکت پر پابندی عائد کرنی چاہئے۔

تازہ ترین