• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ کے این ایچ ایس کو گیارہ ملکوں کے ہیلتھ سسٹم میں نمبر ون کا درجہ دیا گیا ہے۔ گیارہوں نمبر پر امریکہ کا ہیلتھ سسٹم ہے۔ این ایچ ایس کو نمبر ون اس کی حفاظت، کارکردگی اور استحکام کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ یہ دوسری بار ہوا ہے جو ہیلتھ سسٹم پہلے نمبر پر آیا ہے۔ یہ درجہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ چلو اس ملک کا صحت کا نظام سیاسی معاشی نظام کی طرح بہترین کی فہرست میں شامل ہے حالانکہ کافی عرصے سے فنڈنگز کی کمی کے باعث اسپتالوں میں مختلف ڈپارٹمنٹس کی بندش، ڈاکٹروں اور نرسز کی کمی کا رونا اور خاص کر ایمرجنسی اور ایکسڈنٹ میں لمبے انتظار کی کوفت نے این ایچ ایس کی زبوں حالی کو عیاں کردیا تھا گویا حکومت نے ہیلتھ سسٹم پر دھیان دینا ہی چھوڑ دیا ہو۔ کہیں سٹاف کی کمی ہے کہیں اپائمنٹس ہی نہیں مل رہے۔ سرجریز کے لئے بھی نو نو مہینے کے انتظار کے بعد سرجری کی جاتی ہے۔ خو د بینبری کا واحد اسپتال کٹوتیوں کا شکار ہے۔ میٹرنٹی جیسا اہم ڈپارٹمنٹ مڈاوائفز کے سپرد کردیا گیا ہے مطلوبہ نو اسپشلسٹ کی کمی کے باعث اور اس کا متبادل اسپتال آکسفورڈ کے جان ریڈکلف کو بنایا گیا ہے جس کی مسافت عام حالت میں ایک گھنٹہ لیکن رش کے اوقات میں ڈبل ہی ہوجاتی ہے جس سے بینبری کی لوکل عوام خاصی پریشانی سے دوچار ہے۔ لوکل ایم پی بھی اس کے خلاف کمربستہ ہیں اور اسی کوشش میں ہیں کہ کسی بھی طرح واپس اسے کنسلنٹس کے زیر نگرانی ہی کردیا جائے گا۔ ابھی تو جونئیر ڈاکٹرز بھی ہڑتال پر ہڑتال کئے جا رہے تھے کہ ان کے ورکنگ آورز میں اضافہ کیا جارہا ہے اور ویک اینڈ پر بھی کام کرنے کو کہاجارہا ہے جو ٹھیک نہیں۔ ابھی حالیہ عام انتخابات میں بھی حکومت مخالف پارٹیوں نے اپنے انتخابی منشور میں این ایچ ایس کی گرتی حالت کو خوب بنیاد بنایا تھا اور یہی ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کی حکومت کسی بھی طرح اس اہم ادارے کو سنبھالنے سے قاصر ہے۔ ملک کی دوسری بڑی پارٹی لیبر جو اس نظام کی شروعات کا سہرا اپنے سر باندھ چکی ہے اس کے لیڈر جرمی کوربن نے بھی اپنی انتخابی مہم میں بار بار حکومت کی فنڈنگز کی کمی کو سیاسی حربے کے طور پر خوب استعمال کیا تھا اور ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم تھریسامے کی زیادہ سے زیادہ عوام مینڈیٹ حاصل کرنے والی آرزو بھی اسی لئے نامکمل رہ گئی ہو کیونکہ این ایچ ایس کی بدحالی عام انتخابات میں بار بار اٹھائی گئی اور عوام کو یقین دلا دیا گیا کہ ہماری صحت کا نظام ٹھیک ہاتھوں میں نہیں ہے۔ لیکن اب اس لسٹ کے سامنے آنے سے تو معاملہ ہی الٹا پڑ گیا کہ نہیں بھئی برطانیہ کا این یچ ایس ابھی بھی دنیا کے بڑے سپر پاورز ملکوں میں سب سے آگے ہے۔ اس نے تو امریکہ اور جرمنی تک کو پیچھے چھوڑدیا۔ جہاں تک اس کی گرتی حالت کے قصے ہیں اب اتنے بڑے پھیلے ہوئے نظام میں چھوٹی موٹی کمی بیشیاں تو آتی جاتی رہتی ہیں۔ کبھی کم زیادہ انتظار کی کوفت بھی اٹھانی ہی پڑ جاتی ہے۔ ڈاکٹر نرسز کا آنا جانا بھی لگا رہتا ہے لیکن مجموعی طور پر یہی نظام دنیا میں نمبر ون تھا اور ہے لیکن اس کے نمبر ون آنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اب برطانیہ کا این ایچ ایس ایک عالمی میعار بن چکا ہے جسے ایک تو اسے ملک کی حکومت کے لئے برقرار رکھنا ضروری ہے۔ دوسرے اسے اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے اس لئے کہ اس میعار کو اس درجے پہنچا دیا جائے کہ واقعی کمال کا ہو جائے کیو نکہ یہ نظام اس ملک کے لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے، اگر یہی اس سے مطمئن نہیں ہوں گے تو چاہے اسے کہیں بھی داد مل جائے اس کی وہ پذیرائی نہ ہوسکے گی جو اس کا حق بنتا ہے نمبر ون ہونے پر۔ بہر حال اس عالمی رپورٹ نے بال بچے داروں کو یہ اطمینان بھی دے دیا ہے کہ فکر کی کوئی بات نہیں ہمارا این ایچ ایس کا نظام بیماریوں کے برے دور میں بھی ٹھیک کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے کیونکہ جان ہے تو جہاں ہے۔

تازہ ترین