• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کسی بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا تحریر:سرور بھٹی …اٹلی

استعفیٰ ،استعفیٰ ،استعفیٰ، ہر طرف ایسا شور کہ اللہ توبہ ۔ تاریخ سے سبق سیکھنے والے ہمیشہ خوش و خرم زندگی گزارتے ہیں اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والوں کو تاریخ خود سبق سکھا دیتی ہے اور شاید پاکستانی قوم نے تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ پاکستانی ہر بندہ خود کو عقل ِکل اور تمام مسائل کو حل کرنے والا سمجھتا ہے اور خود کو فرشتہ سمجھنے کے علاوہ باقی سب اْس کی نظر میں چور ، ڈاکو ، غدار اور ملک دشمن عناصر ہیں اور خود صادق و امین اور ملک کا سب سے بڑا خیرخواہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ(کوئی مانے یا نہ مانے ) خیر جمہوریت جمہوریت کھیلنے والے پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں ایک مرتبہ نہیں متعدد بار ایسا کھیل، کھیل چکے ہیں مگر اپنے لالچ اور چوہدراہٹ کی خواہش میں ملک کو بے پناہ نقصان پہنچا چکے ہیں۔ تاریخ کے اوراق کی گردکو اگر تھوڑا ہٹا کر دیکھا جائے تو سب کچھ صاف صاف نظر آنا شروع ہو جائے گا مگرمجال ہے کہ اْس سے کچھ سبق سیکھا جائے۔ اْلٹا سب کچھ جانتے ہوئے اور نقصانات سے واقف ہونے کے باوجود آنکھیں بند کر کے پھر وہی غلطی دہرانے کو تیار ملیںگے۔ لیاقت علی خان کا قتل ہو یا ایوب خان کا مارشل لاء 1970کے الیکشن میں شیخ مجیب الرحمٰن کے عوامی مینڈیٹ کو نہ مان کر ہم مشرقی پاکستان کی قربانی دے بیٹھے ۔بہت سے مفاد پرستوں نے شکر ادا کیا کہ بنگالیوں سے جان چھوٹی مگر چند سال بعد بنگالی قوم سے ہونے والی زیادیتوں کا علم ہوا تو پاکستان کو توڑنے والوں کو برا بھلا کہنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکے۔پھر بھٹو کے خلاف نو ستاروں کے اتحاد کی شکل یا ضیاالحق کا مارشل لاء جس کے جواب میں ایک اعلی ظرف سیاست دان کا قتل اور 90دن میں الیکشن کروانے کا جھوٹ اور سالہا سال تک جمہوریت سے دوری ملی۔ ملک میں کلاشنکوف کلچر ، منشیات کی کھلے عام فروخت ، جہاد کے نام پر ملک میں دہشت گردی ، مذہب کے نام پر فرقہ پرستی، مذہبی سیاسی جماعتوں اور پاکستان مخالف قوتوں کو بڑھاوا ، ملک میں اسلامی نظام ڈنڈے کے زور پر لانے کی ناکام کوشش۔ مگر پھر اسی جمہوریت کیلئے بیقرارپاکستانی عوام ملک میں گھیراؤ جلاؤ ، توڑ پھوڑ ، ملکی املاک کا نقصان ، ہر طرف بے یقینی کی کیفیت ،سیاسی مقدمے بازیاں ، جیلیں بھرو کلچرجس کے بعد پاکستانی عوام ضیاءالحق سمیت ملکی اعلیٰ فوجی قیادت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور جمہوریت بحال ہو گئی۔ برسوں ملک بدر رہنے والی سیاسی قیادت کی واپسی شروع ہو گئی۔ پاکستان بلکہ دنیا میں پہلی اسلامی ریاست کی خاتون وزیرِاعظم کا اعزاز بینظیر بھٹو کی شکل میں پاکستان کو مل گیا۔مگر ہائے یہ کرسی کی ہوس! پھر وہی ہنگامہ آرائی، پھر وہی گھیراؤ جلاؤ کی سیاست ،پھر وہی سیاسی مقدمے بازیاں، پھر وہی پاکستان مخالف قوتوں کی شازشیں ، بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دے دیا گیا اور پھر اْسی جمہوریت سے خلاصی۔ مگر اللہ تعالیٰ کی مہربانی یا پاکستان کی قسمت کہ اس دفعہ بوٹوں کی آواز تھوڑی دْور سے آتی سنائی دی اورجمہوریت دوبارہ بحال ہو گئی مگر کب تک ۔ ادلے کا بدلہ والی جمہوریت اور اقتدار کی کرسی کیلئے سیاسی رسہ کشی جاری رہی اور یہ عمل بار بار دہرایا جاتا رہا اسی دوران ملک کو لوٹ کر کھانے کی رسم اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ مسٹر 10% کا خطاب ، کرپشن کے الزامات، سرے محل جیسے مقدمات، سوئس بینکوں میں ملین ڈالرز جیسے انکشافات، یلوکیب سکیم ، حدیبیہ پیپر ملز کیس ، قرض اتارو ملک سنوارو اور ناجانے کون کون سے الزامات ایک دوسرے پر لگائے جانے لگے۔ کسی کو تاریخ سے نہ کچھ سیکھنا تھا اور نہ سیکھا ، تاریخ نے ایک مرتبہ پھر کروٹ لی ،ایک مرتبہ پھر پاکستان کو بچانے کی کوشش میں ہمیشہ کی طرح پاک فوج نے میدان میں آ کر پاکستان کا پتوار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ پھر وہی پکڑ دھکڑ شروع ، کرپش کے کیس بنائے جانے لگے ، تلاشیاں شروع ہو گئیں موقع پرست اور کرسی کے لالچی ایک مرتبہ پھر غالب آنے لگے۔ سیاسی لڑائیوں میں ملوث سیاسی قیادت ملک بدر کر دی گئی یا گرفتاریوں کے ڈر سے خود ملک سے باہر چلی گئی۔ اب پھر پاکستانی عوام نے مٹھایاں تقسیم کیں ، خوشی سے بھنگڑے ڈالے گئےکہ پاکستان ایک بار پھر بچ گیا۔لیکن اس مرتبہ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ اسی دوران القائدہ کے ایک حملے نے عالمی سیاست کو ہی بدل ڈالا۔ امریکہ نے بدلہ لینے کے لئے افغانستان جو اْس وقت القائدہ کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اْس پر یو این او کی فوجوں کے ذریعے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ پاکستان جو افغانستان کا ہمسایہ اور روس جیسی سپر پاور کو مار بھگانے میں افغانستان کا بھرپور ساتھ دے چکا تھا۔ امریکہ کو معلوم تھا کہ پاکستان کے بغیر القائدہ کا خاتمہ افغانستان سے ناممکن ہے بدقسمتی سے اْس وقت پاکستان میں اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کیلئے سیاسی قوت ناپید تھی۔ مارشل لاء کا دور اور جنرل پرویزمشرف کا اقتدار ، امریکہ بہاد ر نے ڈالرز کی بارش کر دی، پاکستان کو بہت سی مراعات دیں اور فوجی قوت میں بے پناہ اضافہ کی نوید سنائی اور ساتھ ساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر ساتھ نہ دیا تو پاکستان بھی یو این او کی فوجوں کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہو جائے۔پاکستان میں اْس وقت کی حکومت نے عالمی حالات اور پاکستان کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے امریکہ کے حق میں فیصلہ کر دیا ۔ لیکن عملی طور پر اس جنگ کا حصہ نہ بننے کا بھی اچھا فیصلہ کیا ، یہاں ایک بات کہتا چلوں کہ اگر اْس وقت فوجی قیادت کی جگہ سیاسی قیادت ہوتی تو شاید فیصلہ یا اس جنگ کا حصہ بننے کی شرائط کچھ اور ہوتیں۔ مفادات اور واحد سپر پاور ہونے کے غرور کی بیرونی جنگ کو ہم نے اپنی جنگ سمجھ کر لڑا جس کے نتیجے میںافغانی طالبان پاکستان کے مخالف ہو گئے اور دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔، خودکش حملوں میں اضافہ ہونے لگا ملک میں لال مسجد جیسے مسئلے سر اْٹھانے لگے ۔ وردی کی طاقت اور اقتدار کے نشے میں عدلیہ سے اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کے لئے اداروں کو پامال کیا جانے لگا ۔ دوسری طرف کافی عرصے سے ملک بدر رہنے والی سیاسی قیادت کو شاید سمجھ آگئی تھی کہ ایک دوسرے پر کرپشن اور سکیورٹی رسک کے الزامات لگاکر نہ تو اقتدار کی کرسی اور نہ ہی جمہوریت کی بحالی ہو سکتی ہے ۔اس سلسلے میں سیاسی دشمنوں کی ملاقاتوں کا آغاز کبھی لندن اور کبھی دبئی میں شروع ہو گیا ۔جس کے نتیجے میں آٹھ سال سے اقتدار کے مزے لوٹنے اور امریکی ڈالرز پر پاکستان کی معاشی ترقی کے سہانے خواب دکھانے والوں نے این آر او کے تحت ملک بدر سیاسی قیادت کو ملک میں آنے کی اجازت دے دی ۔ سیاسی قیادت نے آتے ہی عدلیہ بچاؤ مہم کا آغاز کر دیا پاکستانی عوام پھر سڑکوں پر آ گئے ۔ پھر وہی جمہوریت بحالی ، پھر وہی اقتدار کی جنگ ، پھر وہی گھیراؤ جلاؤ ، دہشت گردی کی لہر، اس مرتبہ ایک اضافی عنصر تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کی زنجیر بینظیر کو ایک خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا ۔پاکستانی عوام ہمیشہ کی طرح معصوم پھر دھوکے میں آ گئی اور پاکستان کا اقتدار ایسے ہاتھوں میں چلا گیا جس نے پاکستان کی گرتی ہوئی معاشی حالت کو کرپشن کے ذریعے بد سے بدتر کر دیا پاکستان اندھیروں میں ڈوب گیا ، دہشت گردی میں ہزاروں معصوم جانیں چلی گئیں کرپٹ حکمران اپنی کرسی بچانے کے چکروں میں رہے۔ ملکی ترقی اور پاکستان کے ماتھے سے دہشت گردی کے الزام کو مٹانے کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ کیا گیا تو صرف اپنے اقتدار کو بچانے اور تیسری مرتبہ وزیرِاعظم بننے کے لئے 18 ویں ترمیم کو ختم کر کے اْس میں شامل صدارتی اختیارت کو ختم کیا گیا مگر جمہوریت پھر زندہ ہو گئی ۔ پانچ سال پورے کرنے والی پاکستان کی تاریخ میں پہلی جمہوری حکومت کو 2013کے الیکشن میں عوام نے یکسر مسترد کر دیا جس کے نتیجے میں حالیہ برسرِ اقتدار ن لیگ نے اقتدار سنبھالا۔ مگر اقتدار میں آتے ہی ہر طرف دھاندلی ، دھاندلی کا شور، ملک کے چاروں صوبوں میں گونجنے لگا ، سیاسی قیادت پھر بکھرنے لگی۔ ن لیگ کی حکومت جیسی بھی ہو مگر اس مرتبہ اْس نے اقتدار میں آنے کے بعد ملکی ترقی کی طرف دھیان دیا۔ ملک کو اندھیروں سے نکالنے کے لئے اپنی الیکشن مہم میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ سی پیک کا منصوبہ ہو یا دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب یا ردالفسادآپریشن یا لوڈشیڈنگ کو ختم کرنے کے منصوبے ، کراچی میں امن و امان کی صورت حال کو کنٹرول کرنا ، یا ملک میں ہائی وے کے منصوبے ، تیل کی قیمتوں میں کمی ہو یا ڈالر کی قیمت میں کمی، ان تمام اربوں روپے کے منصوبوں میں اس مرتبہ ناقدین ، حکومت پر چاہتے ہوئے بھی کرپشن کا الزام نہیں لگا سکے۔ اس مرتبہ حکومت کی کارکردگی ہر لحاظ سے پچھلی حکومتوں سے اچھی ہے پنجاب حکومت کی کارکردگی دیکھی جائے تومیٹرو بس لاہور ، میٹرو بس راولپنڈی یا میٹرو بس ملتان ندی پور بجلی پروجیکٹ ہو یا قادرآباد کا منصوبہ، پنجاب میں سڑکوں کا جال ہو یا کسانوں کیلئے کھاد کی قیمتوں میں کمی، ٹیوب ویل کیلئے استعمال کی جانے والے بجلی کی فی یونٹ کم قیمت ۔ اور یہی ترقی پاکستان مخالف قوتوں کو پسند نہیں آ رہی۔ جب سے یہ حکومت آئی ہے کبھی دھاندلی کا رونا رویا جا رہا ہے اور کبھی سی پیک جیسے بڑے منصوبے کو سبوتاژکرنے کی کوشش ، کبھی دھرنے اور کبھی شہروں کو بند کرنے کی دھمکیاں ، سٹرکوں پر احتجاج یا حکومت مخالف نعرے نجانے کیا ہوگیا ہے ہمارے سیاست دانوں کو سوچنے کا مقام ہے کہ بیرونی پاکستان مخالف طاقتیں تو پہلے ہی پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے پر ناراض ہیں اور نہیں چاہتیں کہ اب پاکستان معاشی طور پر بھی خود کفیل ہو جائے اور اس کیلئے یہ طاقتیں ہمارے ہی لوگوں کو ایک خاص سوچی سمجھی سازش کے ذریعے اپنا آلہ کار بنائے ہوئے ہیں اور ہماری پاکستانی معصوم عوام بھی ایسے سہولیت کاروں کی سہولت کار بننے میں دیر نہیں لگاتی۔ خدا را پاکستان کی ترقی میں رکاوٹیں ڈالنے والوں سے ہاتھ جوڑ کر منت ہے کہ اپنی آزادی کو داؤ پر مت لگائیں اور بیرونی طاقتوں اور چند ڈالرز کیلئے اپنی قوم کا سودا مت کریںاور جمہوریت کو چلنے دیا جائے اگریہ حکومت کوئی کارکردگی نہ دکھا سکی تو 2008 والی حکومت کی طرح اس بار بھی عوام اس حکومت مسترد کر دے گی۔ صبر سے کام لیں اب پاکستان کسی اور بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

تازہ ترین