• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظرنامہ، داستان سیاست میں اعتماد، پرخلوص تعلقات کی نوعیت بدل چکی

اسلام آباد( طاہر خلیل)اس میں شک نہیں کہ چار عشروں پر پھیلی چوہدری نثار علی خان کی تہہ در تہہ اور سردو گرم چشیدہ سیاست اجلے کردار اور اعلیٰ دانش کے باوجود فقط نواز اور اینٹی نواز چلن کے گردگھوم رہی ہے۔ انہیں مسلم لیگ(ن) کا سرکردہ لیڈر سمجھا جاتا ہے ان کے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں لیکن پارٹی کے بیشتر فیصلوں میں ان کی مرضی و منشا شامل ہوتی ہے۔

یہ منفرد اعزاز ان کی شخصیت کو اور نمایاں کرتا ہے کہ وہ ایسے سینئر ترین پارلیمنٹرین ہیں جو1985 سے مسلسل الیکشن جیت کر آ رہے ہیں اور حکمرانی سول ہو یا فوجی ،سیاست کاموسم سرد ہو یا گرم، جماعتی وابستگی اور میاں نواز شریف سے وفاداری میں کبھی لغزش نہیں آئی، اپنےخاندانی عسکری پس منظر کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات میں پل کا کردار ادا کرکے وطن عزیز کو بحرانوں سے نجات دلانے میں کردار ادا کیا۔ فوج اور حکومت میں محاذ آرائی جمہوری معاشروں کےلئے نقصا ن دہ ہے۔

نیوز لیکس کے معاملے پر آئی ایس پی آر کے ٹویٹ پر سب سے پہلا اورمضبوط ردعمل ان کی جانب سے آیا تھا کہ ٹویٹ جمہوریت کے لئے زہر قاتل ہےلیکن پانامہ لیکس پر جب حکمران جماعت کے کچھ عناصر کی جانب سے ’’سازش‘‘ کے خدشات کااظہار کیاگیا تو چوہدری نثار کی صائب تجویز پر عمل اور اس حوالے سے سٹیک ہولڈرز کے مابین مکاملہ ہونا چاہیے تھا جو نہیں ہوسکا۔ماضی قریب میں کرپشن کے خلاف ’’صفائی مہم‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے ایف آئی اے کو متحرک کیاگیا، پیپلز پارٹی کے لیڈروں کےخلاف 5 میگا کرپشن کیسز اور پھر 5 لاکھ ڈالر غیر قانونی طریقے سے منتقلی کیس میں ایان علی کے خلاف کارروائی میثاق جمہوریت کے پردے میں لپیٹ دی گئی۔نیوز لیکس کےبعد پانامہ لیکس کے ہنگامے میں ا نہوں نے وزیراعظم کے قوم سے خطاب اور پھر 15 جولائی کو جے آئی ٹی کی پیشی کے موقع پر میڈیا ٹاک میں کٹھ پتلیوں کے تذکرے کی مخالفت کی تو مشاورتی اجلاسوں میں بلانا چھوڑ دیاگیا۔یہی وہ عوامل تھے جو ان کے اصولی موقف کی وجہ سے باعث ناراضی بنے اورمخصوص عناصر نے اسے دو آشتہ کیا۔

پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی میں چوہدری نثار علی خان کے ساتھ 1985 سے اب تک رسمی ملاقاتوں، حکومتی اور غیر سرکاری ،صحافتی، سیاسی اور غیر سیاسی اور خاندانی معاملات کو قریب سے دیکھتے ہوئے ایک جملے میں کہا جاسکتا ہے کہ نثار علی خان مالی امور میں دیانتدار، سیاسی طور پر منفرد موقف رکھنے والے پارٹی کے وفادار اورایسے سخت گیر سیاستدان ہیں جنہیں طاقت کے سول اورملٹری مراکز میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔سینیٹر مشاہد حسین کاکہنا ہے کہ فوج اور فوجی اداروں کے حق میں بولنے کےلئے انہیں کوئی نہیں کہتا وہ ایسا ازخود کرتے ہیں کیونکہ والد مرحوم کی وجہ سے وہ خود بھی کنٹونمنٹ کا حصہ رہے ہیں، اس لئے وہ ان کی نمائندگی کرتے ہیں تاہم پارٹی وابستگی سےدستبردار نہیں ہوتے، مشاہد حسین نے یاد دلایا کہ 1992 میں کراچی اورسندھ میں جنرل آصف نوازنے فوجی آپریشن شروع کیا تو نثا ر علی نے کابینہ میں کھل کھلا کر اصولی طورپر فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی، چوہدری نثار علی خان نے آج پریس کانفرنس کا اعلان کررکھا ہے اور یہ طے ہے کہ وہ پارٹی سے استعفیٰ نہیں دیں گے۔

تاہم یہ بھی قریبا طےہے کہ میاں نوازشریف کی نااہلی کی صورت میں وہ کسی دوسرے وزیراعظم کے ساتھ بطور وزیر کام نہیں کریں گے اور میاں نواز شریف کے علاوہ کسی کو بطور لیڈر قبول نہیں کریں گے۔واقعہ جو بھی ہو لیکن داستان سیاست میں اعتماد کے رشتے اور پرخلوص تعلقات کی نوعیت بدل چکی ، گویا’’پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ‘‘

تازہ ترین