کراچی (سید محمد عسکری + اسٹاف رپورٹر) صوبائی محکمہ تعلیم کی تعلیم کی بہتری کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں اور سرکاری اسکولوں کا معیار اس حد تک گر گیا ہے کہ گزشتہ سال انٹر سال اول کی مرکزی داخلہ پالیسی کے تحت میرٹ پر کراچی کے ٹاپ 11 سرکاری کالجوں میں9514داخلوں میں صرف 17 طلبہ کا تعلق سرکاری اسکولوں سے تھا باقی تمام طلبہ کا تعلق نجی اسکولوں سے تھا۔
سرکاری اسکول جہاں حکومت ایک طالبعلم پر تقریباً 5 ہزار روپے ماہانہ خرچ کرتی ہے وہاں اتنی خراب کارکردگی حکومت کی عدم دلچسپی کا ہی مظہر ہے۔ سرکاری اسکولوں میں کتابیں مفت ہوتی ہیں، داخلہ یا ٹیوشن فیس نہیں لی جاتی جبکہ انرولمنٹ اور امتحانی فیس بھی معاف کی جا چکی ہے، اس بات کا ثبوت ہے کہ سرکاری اسکولوں کی تعلیم تباہ ہوچکی ہے۔ ٹاپ11 کالجوں میں آدمجی سائنس کالج میں کسی سرکاری اسکول سے میٹرک کرنے والے طالبعلم کو داخلہ نہیں مل سکا، ڈی جے سائنس کالج میں سرکاری اسکول سے میٹرک کرنے والے ایک طالبعلم کو داخلہ ملا ، دہلی کالج میں چار، اسٹیڈیم روڈ کالج میں صفر، پی ای سی ایچ ایس کالج میں ایک طالبہ کو، سر سید گرلز کالج میں تین طالبات کو، ملیر کینٹ میں دو، سینٹ لارنس گرلز کالج میں ایک طالبہ کو اور خاتون پاکستان گرلز کالج میں سرکاری اسکول سے میٹرک کرنے والی چار طالبات کو جگہ مل پائی یہ اعداد و شمار پری انجینئرنگ اور پری میڈیکل کے ہیں۔
کامرس ان میں شامل نہیں۔ ملیر کینٹ اور اسٹیڈیم روڈ کالج مخلوط کالجز ہیں جہاں طلباء و طالبات کا میرٹ علیحدہ بنتا ہے۔