• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسجد میں مرثیہ خواں ہیں انداز بیاں …سردار احمد قادری

اقبال نے جواب شکوہ میں نمازی نہ رہنے اور مسجدوں کی مرثیہ خوانی کا تذکرہ کیا ہے۔
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
مطلب یہ ہے کہ صرف مسجدوں میں نمازیوں کی کمی کا شکوہ نہیں ہے بلکہ ’’اوصاف حجازی‘‘ والے نمازی نہ ہونے کا شکوہ ہے۔ یہ صاحب ’’اوصاف حجازی‘‘ کون لوگ تھے؟ افسوس کہ تاریخ لکھنے والوں نے زیادہ زور سیاسی اختلافات اور مسلمان حکمرانوں کے خلاف چلنے والی تحریکوں شور شوں، بغاوتوں اور قتل عام پر دیا جو کہ ایک حقیقت ہے اور اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا لیکن مورخین کی نظر اوصاف حجازی والے اصحاب پر ذرا کم ہی پڑی ہے اور اگر پڑی ہے تو برسبیل تذکرہ، صرف ایک ضمنی عنوان کے تحت ، حالانکہ انہیں تو سرنامہ عنوان ہونا چاہئے تھا۔ انہیں تو امت کے لئے پیغام عزم واطمینان ہونا چاہئے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا’’اوصاف حجازی‘‘ کے حامل لوگوں کے تذکرے نہ ہونے اور ان کا ذکر خیر کم ہونے کی وجہ سے اب الا ماشاءاللہ مساجد میں وہ نمازی آنے لگے ہیں جو مسجد میں نماز کی طرف توجہ کم کرتے ہیں اور مسجد کے امام صاحب پر ان کی ناقدانہ نظر زیادہ ہوتی ہے۔ انہیں ایک بشری تقاضوں والا امام نہیں چاہئے بلکہ فرشتہ خصلت یعنی ہر طرح کی ضروریات سے بے نیاز امام چاہئے۔ اپنے وقت کے ایک عظیم المرتبت عالم، محقق اور محدث کی خدمت میں پنجاب کے ایک قصبے کے چند لوگ آئے اور کہا حضرت مسجد کے لئے امام چاہئے آپ اپنے کسی شاگرد کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے۔ حضرت نے فرمایا کس طرح کا امام چاہئے؟ انہوںنے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام نوجوان ہونا چاہئے، قاری قرآن ہوتاکہ تلاوت اچھی کرسکے، حافظ قرآن ہو تاکہ رمضان میں تروایح پڑھا سکے، اچھا خطیب اورمقرر ہوتاکہ جمعہ میں لوگ دلچسپی سے آسکیں، اچھا مدرس ہونا چاہئے تاکہ مدرسے کا انتظام سنبھال سکے، غیر شادی شدہ ہوتاکہ ہمیں مکان کا انتظام نہ کرنا پڑا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ تنخواہ بھی زیادہ نہ مانگے کیونکہ ہم اس کی زیادہ خدمت نہیں کرسکتے۔ حضرت نے یہ مطالبات اور شرائط سن کر فرمایا آپ کی خواہش کے مطابق تو حضرت جبرائیل علیہ السلام ہی پورے اترتے ہیں وہ تنخواہ بھی نہیں مانگیں گے اور فی سبیل اللہ یہ کام کردیں گے۔ یعنی مساجد میں امام صاحبان کو جو تنخواہ دی جاتی ہے وہ برطانیہ اور یورپ میں کم سے کم تنخواہ کے معیار سے بھی عام طور پر کم ہوتی ہے لیکن تقاضا یہ ہوتا ہے کہ امام صاحب ہر وقت ہر دن اور ہر آن دستیاب ہوں اور کسی قسم کے مطالبے سے بے نیاز ہوں جب امام صاحب کو لایاجاتا ہے تو ان کی خوبیاں ہی خوبیاں نظر آتی ہیں آہستہ آہستہ یہ خوبیاں نظر نہیں آتیں بلکہ ان کی جگہ چھوٹی چھوٹی خامیاں نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں جو بالآخر بڑی بن جاتی ہیں کچھ لوگ کان بھرنے میں ماہر ہوتے ہیں وہ جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں ایک دن معلوم ہوا کہ تبلیغ اسلام کے لئے آنے کا دعویٰ کرنے والے بعض لوگوں کی وجہ سے ماحول خراب ہونے لگا اور اندیشہ تھا کہ حالات کی تلخی کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہوجائے کیونکہ ہمارے نوجوان ساتھی اس صورت حال میں طیش اور غصے میں تھے اور امکان تھا کہ کسی دن یہ تلخی کسی بڑے جھگڑے کی شکل اختیار نہ کرے۔ لہٰذا اس صورت حال کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی اشارہ سمجھتے ہوئے ایک نئی جگہ پر مسجد کے قیام کے متعلق سوچنا شروع کردیا۔ مختصر عرصے کے لئے ایک قریبی مسجد میں خدمات سرانجام دیں لیکن مولانا شاہ احمد نورانی اور دیگر مخلص رفقا اور ساتھیوں کے مشورے پر شہر کے وسط میں جگہیں دیکھنا شروع کردیں۔ مقصد یہ تھا کہ تلخی کے اس ماحول سے بہت دور برسلز شہرکے مرکزی علاقے میں کوئی ایسی وسیع وعریض جگہ مل جائے جہاں تقریبا ایک ہزار آدمی نماز پڑھ سکیں کیونکہ عیدین کے موقع پر اور اجتماعات کی صورت میں ہمیں ہال کرائے پر لینے پڑتے تھے۔ ہماری تلاش کو چند ہفتے ہوئے تھے کہ معلوم ہوا کہ شہر کے مرکزی ریلوے سٹیشن اور تاریخی عمارت گرانڈ پیلس سے دس، بارہ منٹ پیدل کے فاصلے پر گاڑیوں کی ایک ورکشاپ خالی پڑی ہے اور اس میں دو بڑے بڑے ہال ہیں اس برائے فروخت عمارت کا اندر جاکر مشاہدہ کیا تو جگہ پسند آئی لیکن اس کی چھت بوسیدہ تھی اور کھڑکیاں نہیں تھیں۔ مولانا شاہ احمد نورانی ہالینڈ آئے ہوئے تھے انہیں آنے کی دعوت دی، وہ آئے تو جگہ کی وسعت دیکھ کر خوش ہوئے لیکن فرمانے لگے ’’ اندھیرا بہت ہے‘‘ میں نے کہا ’’ اب نہیں رہے گا کیونکہ نورانی آگیا ہے ‘‘ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے چند دنوں میں اتنی رقم اکھٹی ہوگئی کہ ہم نے مطلوبہ پیشگی رقم دے کر عمارت ٹرسٹ کے نام پر کروانے کی کارروائی شروع کردی۔ ٹرسٹ میں میرے علاوہ مولانا نورانی اور پانچ دیگر افراد تھے۔ مولانا نورانی نے اس کا منشور تجویز کیا اور مجھے ٹرسٹ کا چیئرمین بننے کی ذمہ داری دی گئی۔ ہم نے عمارت خرید کر سب سے پہلے نئی چھت ڈلوائی، ایک صاحب نے تمام کھڑکیاں نئی لگوادیں، پوری عمارت کو پلستر کرا کر اس پر سفیدی کروائی گئی اور ٹیوب لائٹس لگادی گئیں چند مہینوں میں وضو خانے کا اہتمام بھی ہوگیا اور یوں سید نا امام زین العابدین کے نام پر ’’ مسجد العابدین‘‘ قائم ہوگئی۔ رمضان المبارک میں روزانہ افطاری کا اہتمام ہوتا اور عیدالفطر میں برسلز کی تاریخ میں پہلا موقع آیا کہ پاکستانی کمیونٹی نے کوئی ہال کرائے پر لینے کی بجائے مسجد العابدین میں نماز عید ادا کی۔ ایک دن پا رسائی کا دعویٰ کرنے والے ایک صاحب آئے اور کہا کہ یہاں تبلیغ کی اجازت دیجئے میں نے عرض کیا اس شرط پر تبلیغ کی اجازت ہوگی کہ آپ کے زیر انتظام مسجد میں ہمیں بھی اسلام کی تبلیغ کی اجازت ہوگی اس دن کے بعد آج تک وہ واپس نہیں آئے اور ’’مسجد العابدین‘‘ آباد وقائم ہے۔

تازہ ترین