خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں زائد المیعاد دوا کے استعمال سے ایک ہی شخص کے تین بچوں کا لقمہ اجل بن جانا بلاشبہ نہایت اذیت ناک اور روح فرسا واقعہ ہے۔وادی سرن کے سکیان نامی گاؤں میں اتوار کو پیش آنے والے اس دلددوز سانحہ کی جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں ان کے مطابق اورنگ زیب نامی بدقسمت باپ اپنے بچوں 14 سالہ سکینہ بی بی، اس کی سات سالہ بہن رمیشا اور چھوٹے بھائی سجاد کو مقامی میڈیکل اسٹور سے خریدی گئی دوا کے استعمال کے بعد نازک حالت میں شنکیاری کے سول اسپتال لے کر پہنچا لیکن ان کی جان نہ بچائی جاسکی اور تینوں یکے بعد دیگرے موت کے منہ میں چلے گئے۔ اورنگ زیب کے بیان کے مطابق دوا کے استعمال کے بعد تینوں بچوں کو الٹیاں شروع ہوگئیں اور وہ بے ہوش ہوگئے۔سول اسپتال کے ڈاکٹروں کے بقول جہاں لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا، اس حادثے کی وجہ بچوں کو ایسی دوا کا پلایا جانا ہے جس کی میعاد ختم ہوچکی تھی۔ شنکیاری پولیس اسٹیشن میں درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق غم زدہ باپ کا بیان ہے کہ اس نے تینوں بچوں کو ایک کریانہ اسٹور سے خریدی گئی پیٹ کے کیڑے مارنے والی دوا پلائی تھی جبکہ سول اسپتال کے ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ مدت ختم ہوجانے کی وجہ سے اس دوا کا ردعمل ایک مہلک زہر کی طرح ظاہر ہوا اور بچوں کی ہلاکت کا سبب بن گیا۔یہ المناک سانحہ یقینی طور پر ادویات کی خرید و فروخت کے ضروری قوانین کی عدم موجودگی یا ان کے نفاذ میں غفلت اور کوتاہی کا نتیجہ ہے۔ زائد المیعاد ادویات کی فروخت پر ملک میں قانوناً پابندی ہو بھی تو اس پر عمل درآمد کا کوئی باقاعدہ اہتمام بہرحال نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایسے سانحات کی روک تھام کے لئے موجودہ قوانین پر سختی سے عمل کیا جائے اور اگر اس مقصد کیلئے نئی قانون سازی ضروری ہو تو اس میں کوتاہی نہ کی جائے نیز عوام کو اس ضمن میں پوری آگہی فراہم کی جائے اور ذرائع ابلاغ بھی اس معاملے میں پنا کردار مؤثر طور پر ادا کریں۔