2008 سے جاری ’’عشرہ جمہوریت‘‘ میں ثابت ہوا کہ روایتی طرز کے مشکوک پاکستانی الیکشن کے نتیجے میں ملک دو تین سیاسی خاندانوں کے ہاتھوں جکڑا گیا۔ وہی قومی سیاست پر غالب چلے آ رہے تھے وہی بدستور حکمران ہیں، تاہم 9سال میں تیزی سے بگڑے ملک پر بھی دورحمتیں ضرور نازل ہوئیں کہ بگاڑ کے غلبے میں بھی کلمہ ٔ حق بلند ہوتا رہا جو جاری ہے۔
اک رحمت یوں کہ عوام کو مسلسل امن و انصاف سے دور رکھنے والے ظالم تھانہ کچہری کلچر کے مقابل بالآخر عوامی، بالخصوص وکلا او ر میڈیا کی جدوجہد کے نتیجے میں کم از کم بالائی عدلیہ شفاف اور آزاد ہوتی گئی۔ یہ ہوا تو اس پر عوام کا اعتماد بھی بڑھنے لگا۔ الحمد للہ! آج سپریم کورٹ اسٹیٹس کو کی روایتی قوتوں کوبھی فقط آئین وقانون کی ہی روشنی میں فراہمی انصاف کی سکت پیدا کرچکی ہے۔ مکمل سچائی اور پیشہ ورانہ مہارت سے وہ اس کا مظاہرہ پاناما کیس کی سماعت اور اپنے زیرنگرانی تفتیش سے کر رہی ہے۔ اس طرح اس پر برسوں میں مسلسل کھویا جانے والا اعتماد بحال ہو کر، اس کا گراف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ آج وہ (سپریم کورٹ) وہ کچھ (بمطابق آئین و قانون) کرنے کے قابل ہے جس کا یقین جاری نظام بد تشکیل دینے والوں کو ہے نہ اس میں جکڑے استحصال زدہ عوام کو۔
امر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں تیزی سے بگڑتے پاکستان میں نتائج سے بے پروا آزاد میڈیا اور قوم کے رائے ساز طبقے کی مسلسل صدائے حق سے اتنی برکت ہوئی کہ ملکی عدلیہ نے آئین و قانون کی روشنی اور پیشہ ورانہ مہارت سے اپنا آئینی کردار ادا کرنے کی سکت میں غیرمعمولی اضافہ کیا ہے۔ اس کی مکمل تصدیق شروع احتسابی عمل کو حاصل ہونے والی تائید الٰہی سے ہورہی ہے جو ہر صاحب ِ ایمان پر واضح ہوچکی۔ اسٹیٹس کو کی قوتوں اور ان کے ناجائز بینی فشریز نے جو کچھ ہتھے چڑھی ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کے ساتھ کیا اور کر رہی ہے، اس کے مقابل آئینی کردار کی حامل عدلیہ، آزاد میڈیا اور معاشرے کے رائے ساز طبقے نے بھی وہ کچھ کر دکھایا جس کا تصور اب پاکستان میں ختم ہو گیا تھا۔ گزشتہ چند ہی سال میں یہ کافی حد تک واضح تو ہوا کہ پاکستان میں کون کیا ہے؟ لیکن جس تیزی سے جتنا اور جس انداز و تفصیل سے پاناما کیس کے حوالے سے ہوا اور ہو رہا ہے، وہ اللہ کی تائید و نصرت نہیں تو اور کیا ہے؟ اس سے بڑھ کر اللہ کی رحمت اور کیا ہوسکتی ہے، وگرنہ اسٹیٹس کو کلچر کی ایک شناخت یہ بھی ہے کہ قومی امور میں تحقیق و تجسس کو جوتی کی نوک پر لکھا جاتا ہے۔ ساری گورننس درباری ہمنوائی کے زور پر چلائی جاتی ہےحتیٰ کہ تحقیق بھی درباری ہی ہوتی ہے۔ یقین جانئے یہ اللہ کی اتنی بروقت اور بے بہا دین ہے کہ جو کچھ بے نقاب اور آشکار ہوا اور ہوتا جارہا ہے، اسی سے (انشاء اللہ) استحصال زدہ قوم کی گتھیاں سلجھ کر عوام Empowered ہوتے جائیں گے اور یہ سب کچھ عدلیہ کے آئینی کردار کی ادائیگی کے صراط ِ مستقیم پر چل کر ہوگا۔ جس کا سفر شروع ہوچکا، یوں کہ اب آئین و قانون کی تشریح فقط عدلیہ ہی کرے گی جو پاکستان کے جاری عشرہ جمہوریت میں بھی عدلیہ کے متوازی حکمرانی کرنے کی تگ و دو میں رہے۔ حکمرانوں کے ہاتھوںآئین و قانون کی پامالی خصوصاً ’’مختلف طبقات پر قانون کے مختلف درجے کے نفاذ‘‘ (اور خود تو لاءفری ہونا) کے خلاف اور عوام کے غصب شدہ بنیادی حقوق کی بازیابی کے لئے عدلیہ سے رجوع کرنے کا شعور اورہمت دونوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
یہ پس منظر اورپیش منظر لئے پاکستان میں احتسابی عمل تیز اور اس کا دائرہ بھی بڑھتا معلوم دے رہا ہے جبکہ ملکی اعلیٰ عدالتوں میں ہزار بار (شاید لاکھوں ہی) کیسز میں فراہمی انصاف اور آئین و قانون کی روشنی میں احتسابی عمل اور فراہمی ٔ انصاف کی عدالتی سکت کمتر، انتظامی انفراسٹرکچر محدود ہے۔ گویا بلند پیشہ ورانہ معیار اور ہائی کیلیبر کے جج صاحبان کی تعداد میں فوری اضافہ اولین ملکی ضرورت بن گئی ہے۔ ان کی تنخواہوں اور معاون عملےمیں قابل فہم اضافہ بھی ضروری ہے۔ یہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے لئے عدلیہ کی اوور آل کیپسٹی بڑھانےکی فوری اور حساس قومی ضرورت ہے۔ اس پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اسمبلی اور سینٹ فورم میں اکثریت اور تعداد کو خاطر میں لائے بغیر اس سلسلے میں پارلیمنٹ میں تجاویز بشکل قانونی بل، قرارداد یا تجاویزٹیبل کریں۔ آئیڈیل ہے کہ سب مل کر کریں جو اس مقصد عظیم کے لئے نہیں ملتا تو اس ےعوام میں بے نقاب کیا جائے۔ وہ اکثریتی جماعت ہو یا حکومتی اتحادی، اپوزیشن ہو یا اس کی ہمنوا، قوم کے سامنے یہاں بھی ان کے عدم تعاون کی سوچ آخر کیوں؟ کا جواب قوم پر خودبخود واضح ہو جائے گا۔ تاہم عدلیہ پر عوام کے بڑھتے اعتماد کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی کیلئے اس کی سکت میں اضافہ بھی ناگزیر ہو گیا ہے۔ یہ بھی لازم ہے کہ یہ عظیم کار ِ خیر پارلیمنٹ کی تائید و حمایت سے ہو اور اگر اس میں کسی بھی پارلیمانی قوت کی مزاحمت ہو تو اس کا یہ منفی کردار قوم کے سامنے واضح کیا جائے۔ موجودہ سیاسی عملی صورتحال میں اس کی ذمہ داری پارلیمان کی ایک سالہ عمر کے دوران ذمہ دار اپوزیشن جماعتوں پر ہی زیادہ عائد ہوتی ہے۔ ہاں میڈیا، بار کونسل اور وکلا کی منتخب تنظیمیں بھی اپنی مشاورت اور تجاویز سے بذریعہ میڈیا پارلیمنٹ کو فراہم کریں کہ اب عدلیہ کی محدود سکت بڑھتی ضروریات سے میچ نہیں کر رہی۔
جاری عشرہ جمہوریت (2008) میں (آئین کی مکمل اور قانون کے یکساں نفاذ) میں اسٹیٹس کو کی مخالف سیاسی جماعتوں کی کرپشن کے خلاف پاناما کیس سے قبل، عدلیہ سے رجوع کرنے کی محدود سکت اور میڈیا کے اہم مثبت کردار کے متوازی ایک اوربڑی رحمت جو ملک پر ہوئی، وہ یہ ہے کہ افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ اپروچ اور عملی کردار میں وسعت، واقعات اور مداخلت کی سازگار صورتحال کی ایک طویل فہرست بنتی ہے جس میں کوئی فوجی مداخلت نہ ہوئی، جو ثابت کرتی ہے کہ فوج نے سیاست و حکومت میںاپنی قابل تنقید روایتی سوچ اور عملی کردار کو ترک کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ الٹا اسے اندرونی امن عامہ اور دہشت گردی کی بیخ کنی کاکردار سول حکومتوں کی مکمل مرضی سے ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ آپریشن راہ راست (سوات) آپریشن ضرب عضب، شمالی وزیرستان، ردالفساد،، سی پیک کی حفاظت، پاک افغان سرحد کی مینجمنٹ،بلوچستان میں معمول کی زندگی کی بحالی اور خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن کی تمام تر تفصیلات میں جایا جائے تو یقیناً فوج نے اپنی ماضی کی غلطیوں اور سول معاملات میں مداخلت کا کفارہ ادا کردیا اور اس کا یہ کردار جاری ہے۔ ماضی کے برعکس عوام کی طرح ا س نے بھی عشرہ جمہوریت (2008) میں ہر دو باریوں کی دھماچوکڑی کو بڑے صبر و تحمل سے برداشت کیا اور بدترین جمہوریت کا کڑوا گھونٹ پیا۔ عوام تو خیر بے بس اور لاچار ہیں، فوج کا کردار، اس کی نئی سوچ کا عکاس ہے، وہ الگ بات ہےکہ سلامتی سے متعلق حساس ترین امور کو خارجہ پالیسی سے جوڑنے میں اس کی باجواز، آئینی اور پیشہ وارانہ مشاورت کو بھی درجنوں آئین کی خلاف ورزیوں کی مرتکب حکومت نے انا کا مسئلہ نہ بنا کر وزارت ِ خارجہ کو پنجرہ بنا دیا۔ لیکن اپوزیشن جماعتیں، میڈیا اور رائے عامہ اس پر حکومت کی ناقد رہیں۔ بہرحال فوج کی نئی اپروچ اور اپنے اصل کردار کی وسعت اور فاضل کردار کی ادائیگی کی سکت بھی پیدا ہونے والے اور جاری پیچیدہ حالات میں رحمت سے کم نہیں۔