گولڈی نائیجیریا سے آیا تھا۔ انگریزی ادب میں ڈاکٹریٹ کر رہا تھا۔ ہماری دوستی ہو گئی۔ گولڈی کے وظیفے کی رقم پہنچنے میں تاخیر ہو رہی تھی۔ وہ ایک سنجیدہ طالبعلم تھا اور تعلیم میں رخنہ آنے کا خیال ہی اس کے لئے جاں گسل تھا۔ اپنا قصہ یہ تھا کہ کل بائیس سو پاؤنڈ کی خطیر رقم موجود تھی جسے جراب میں لپیٹ کے دراز میں رکھ چھوڑا تھا۔ آئندہ قسط تین مہینے بعد ادا کرنا تھی، صرف چودہ ہزار پائونڈ۔ اگر جراب میں بائیس سو پاؤنڈ رکھے ہوں اور چودہ ہزار پاؤنڈ کی ضرورت ہو تو مالی توازن اور ذہنی توانائی قائم رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سارا معاملہ بھول جاؤ۔ خوش قسمتی کا انتظار کرو۔ پیسہ ایسی چیز ہے جو پاس نہیں ہو تو انسانی سعی کی حدود موت کی طرح قطعی ہو جاتی ہیں۔ میں نے پانچ سو پاؤنڈ اٹھا کے گولڈی کو دے دئیے۔ چھ پاؤنڈ کا سگریٹ کا پیک اور چھ پاؤنڈ کا اکل و شرب، کل ملا کے بارہ پاؤنڈ تو یوں بھی ہر روز خرچ ہو رہے تھے۔ گولڈی اس قدر خوش ہوا کہ اس نے میز پر افریقی ڈرم بجایا اور ہفتے کی شام اپنے اپارٹمنٹ پر آنے کی دعوت دی۔
گولڈی کا کمرہ کاٹھ کباڑ کا عظیم الشان منظر تھا۔ نامانوس غذاؤں کی باس کمرے میں رچی تھی۔ چھوٹے بڑے طرح طرح کے ڈھول رکھے تھے۔ قسم قسم کی موگریاں تھیں۔ اوندھے سیدھے برتن صفائی کے اس درجے پر تھے کہ انہیں استعمال کرنے کے لئے آنکھیں بند کرنا پڑتی تھیں۔ معلوم ہوا کہ گولڈی کو اپنے اہل خانہ سے بہت پیار تھا۔ میں نے دیوار پر آویزاں تصویروں میں دلچسپی دکھائی تو گولڈی نے خوش ہو کر اپنی البم نکال لی۔ اس کا باپ اسکول ٹیچر تھا اور ماں ایک اسپتال میں ملازم رہی تھی۔ ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں نئے شادی شدہ جوڑے کی ایک تصویر پر میری نظریں جم گئیں۔ باپ نے اٹنگی پتلون پہن رکھی تھی اور ماں کا جھولا نما اسکرٹ غربت کی کہانی سنا رہے تھے۔ گولڈی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ان دنوں ہمارا ملک نیا نیا آزاد ہوا تھا۔ میں اس کے بعد البم نہیں دیکھ سکا کیوں کہ مجھے یاد آ گیا کہ طالب علم نے مشرف آمریت کے ہاتھوں قومی توہین اور اجتماعی بے بسی سے فرار ہونے کے لئے پڑھائی کا ڈھونگ رچا رکھا تھا۔ میں نے پوچھا تمہارے ملک میں مارشل لا نہیں لگتا؟ گولڈی نے کہا، کئی بار لگا ہے، لگتا رہتا ہے اور جب مارشل لا نہیں ہوتا تو بھی جبر اور استبداد جاری رہتا ہے… میں خاموش ہو گیا۔ پہلی دفعہ یہ احساس تیز چھری کی طرح میرے اندر اتر گیا کہ ایشیا اور افریقہ میں ہماری نسل کا بنیادی المیہ یہی تھا کہ آزادی مل گئی اور آزاد نہیں ہو سکے۔ آزادی ہمارے ماں باپ کی نسل نے جیتی تھی۔ ہماری عمر تو یہ سمجھنے میں صرف ہو گئی کہ اگر آزادی مل گئی ہے تو ہم آزاد کیوں نہیں ہیں۔ صوفی تبسم کے ایک پنجابی مصرعے کا ٹوٹا پھوٹا ترجمہ کچھ یوں ہو سکتا ہے کہ محبوب کی بستی نظر تو آتی ہے مگر اس تک پہنچ نہیں پاتے۔ نظرے آوندی اے، نیڑے ڈھکدی نئیں…
اورنگ آباد سے آنے والے سید ابوالاعلیٰ مودودی پاکستان کے ابتدائی سیاسی قیدیوں میں شامل تھے۔ لباس، طعام اور کلام میں شائستگی کا رنگ مولانا کی پہچان تھا۔ روایت کی جاتی ہے کہ مولانا پنجابی لب و لہجے سے منغض ہوتے تھے۔ مگر جب ایوب آمریت کا نزول ہوا تو مولانا نے پنجابی کے چار لفظ سیکھ لئے تھے۔ میں ہن کی کراں…؟ ڈاکٹر داؤد رہبر نے سوہنی راگ میں ایک بندش اسی مضمون کی لکھی، کروں کیا کہ بے وفا نے میری بات ہی نہ مانی… اگر ایسے عہد میں جینا پڑے جہاں عقل و خرد کی ایک بھی مانی نہیں جاتی تو سوال تو وہی رہے گا جو اختر شیرانی نے پوچھا تھا۔ جینے والو، تمہیں ہوا کیا ہے؟
لدھیانہ سے آنے والے کارٹونسٹ انور علی نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ آٹھ اکتوبر کی صبح میں نے پاکستان ٹائمز میں ایک سینئر صحافی سے پوچھا کہ اب کیا ہو گا۔ مختصر جواب ملا، ہماری عمریں بھی برباد ہو جائیں گی اور آنے والی نسلیں بھی یہی فصل کاٹیں گی۔ لکھنے والی انگلی خیام کے بقول آگے بڑھ جاتی ہے۔ بیچ میں ایک پڑاؤ جنرل ضیا الحق کا بھی پڑتا ہے۔ کراچی میں ڈاکٹر آفتاب احمد کی ملاقات محمد حسن عسکری صاحب سے ہوئی۔ جنوری 1978ء کے دن تھے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ انہوں نے عسکری صاحب کو ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں گہری تشویش میں پایا۔ بظاہر وہ خود کو حوصلہ دینے کی کوشش کر رہےتھے مگر بے حد دل گرفتہ تھے۔ ڈاکٹر آفتاب نے خیال ظاہر کیا ہے کہ عسکری صاحب بایں انقلاب فکر و خیال بنیادی طور پر فنکار تھے چنانچہ آمریت کے ہاتھوں اترنے والی بے کسی کا بوجھ نہیں اٹھا پائے۔ ابراہیم جلیس کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ آمریت ایک بھاری چٹان کی طرح ان کے نازک دل پر اتری اور وہ چل بسے۔
فیض صاحب کے بارے میں یہ کہنا تو تحصیل حاصل کے مترادف ہو گا کہ ان کا انسان دوستی، امن اور ترقی کا خواب امید کے دھاگوں سے بنا گیا تھا۔ بدترین حالات میں بھی فیض صاحب ناامید نہیں ہوتے تھے۔ فیض صاحب تو گھپ اندھیرے میں بھی پڑھنے والوں کے دل پر دستک صبا رکھتے تھے اور ہمت بندھاتے تھے۔ فیض صاحب کے کلام میں ایک ہی نظم ایسی نظر آتی ہے جس میں اندھے جبر کے مقابل مکمل بے بسی کا احساس ملتا ہے۔ اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے… یہ نظم فیض صاحب نے مارچ 1982ء میں لکھی تھی۔ غالب نے بھی تو عذر خواہی کی تھی… دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں… انسان کا خمیر سنگ و خشت سے نہیں اٹھتا، انسان کچھ خوابوں کی چادر لپیٹ کر جیتے ہیں۔ آمریت کا المیہ یہ ہے کہ یہ خواب کی چادر نوچ لیتی ہے اور گوشت پوست کا انسان بے بسی کی قبر میں اتر جاتا ہے۔ ہٹلر کا تعمیر کردہ عقوبت خانہ ہو یا اسٹالن کا گولاگ، انڈونیشیا کے ترقی پسندوں کی موت ہو یا چلی میں ستمبر سنہ تہتر کا آشوب۔ پنوشے کی آمریت گیارہ ستمبر 1973 کو اتری تھی۔ پابلو نرودا 23 ستمبر 1973کو مر گئے۔ شاعر کو قتل کرنے کے لئے بندوق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ شاعر کا خواب جھوٹا پڑ جائے تو وہ خود ہی مر جاتا ہے۔
اور خواب کا قصہ یہ ہے کہ 1947 ء میں دیکھا جائے یا 1967ء میں، 1988ء میں دیکھا جائے یا 2017ء میں، خواب کو مسلسل آب پاشی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ہمارے شاعر نے کہا تھا، خدا نہ کرے، کسی قوم پر وہ وقت آئے، کہ خواب دفن رہیں شاعروں کے سینے میں… اور اگر ایسا وقت آتا ہے تو دیکھیے، پابلو نرودا کیا لکھتا ہے:
Tonight I can write the saddest lines.
I no longer love her, that's certain, but maybe I love her.
Love is so short, forgetting is so long.
Because through nights like this one I held her in my arms
my soul is not satisfied that it has lost her.
Though this be the last pain that she makes me suffer
and these the last verses that I write for her.