برسوں بعد کراچی میں بارش برسی، بارش جسے لوگ رحمت الٰہی سے تعبیر کرتے ہیں مگروہ کراچی والوں کے لئے باعث زحمت بن گئی جگہ جگہ نکاسی نہ ہونے کے باعث سڑکوں پر پانی تلابوں کی شکل اختیار کر گیا، وہ سڑکیں جو کبھی چلنے کے قابل ہوا کرتی تھیں وہ حکمرانوں کی نا اہلی کی وجہ سے کھنڈر بن چکی ہیں۔ ایک تو پہلے ہی کراچی کا بڑا حصہ نام نہاد ترقیاتی کاموں کے سبب کھدا ہوا ہے ٹریفک کی روانی تو دور کی بات راستہ چلنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان رسہ کشی ہے۔ سندھ کی حکومت پیپلز پارٹی کے پاس ہے اور کراچی کا بلدیاتی نظام ایم کیو ایم کے پاس یہ کراچی کی بد قسمتی ہی تو ہے کہ وہ ایم کیو ایم جو اپنے عروج کے وقت کراچی پر حکمرانی کرتی رہی ہے مگر آج اس میں دھڑے بندی ہوگئی ہے اور اپنے ہی ہاتھوں بکھر کر رہ گئی ہے۔ ان سب دھڑوں کو ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی انتخابات میں زیادہ سے زیادہ ووٹ لے کر اقتدار چاہئے لیکن ووٹر کی کسی کو کوئی ضرورت نہیں اور ووٹر کی اہمیت نہیں اگر حکمراں جماعت یا اردو بولنے والوں کے نام پر بننے والی ایم کیو ایم یا کوئی اور جماعت جو کراچی پر اپنا حق جماتی ہے اسے اگر ووٹروں کی اہمیت کا ذرہ برابر بھی احساس ہوتا تو وہ یوں کراچی کو بے یار و مددگار نہ چھوڑتے۔ مرکز میں پاکستان مسلم لیگ کی حکومت ہے کراچی میں پیپلز پارٹی کی حکومت ، کراچی میں کوشش کے باوجود مسلم لیگ نون کوئی سیٹ حاصل نہیں کرسکی اس لئے اس کی دلچسپی کراچی میں قطعی نہیں ہے ۔رہی پیپلز پارٹی تو وہ سمجھ رہی ہے کہ ایم کیو ایم اس کے حلق میں اٹک گئی ہے نہ اگلتے بن رہی ہے نہ نگلتے بن رہی ہے، جماعت اسلامی ایک واحد جماعت ہے جس کو کراچی کی کسی نہ کسی حد تک فکر ہے وہ اپنی سی کوشش احتجاجی سیاست کے ذریعے کرتی رہتی ہے لیکن کہیں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لئے نہ مرکز تیار ہے نہ صوبائی حکومت کچھ کرنے کو تیار ہے۔ شہر کا روز بروز بیڑا غرق ہورہا ہے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو گزشتہ دس برسوں میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں رہی ہیں کراچی کو ملنے والا باون ارب کا کثیر سرمایہ کراچی میں لگنے کے بجائے وزارتوں اور سرکاری کھاتوں میں تو لگایا گیا لیکن شہر محروم رہا۔
کراچی جو در حقیقت منی پاکستان کی حیثیت رکھتا ہے اس کی آبادی تقریباً دو کروڑ نفوس پر مشتمل ہے لیکن اس کا پرسان حال فی الحال کوئی نہیں ،نہ بلدیاتی ادارے کام کر رہے ہیں انہیں شکایت ہے کہ سندھ حکومت ان کے حصے کے پیسے نہیں دے رہی ،انہیں اپنے ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ بلدیہ کے زیر انتظام تمام ادارے چاہے وہ اسپتال ہوں فراہمی آب و نکاسی کا محکمہ ہو یا تعمیراتی کام کرنے والا محکمہ کراچی کی تمام اہم سڑکیں شکستگی کا شکار ہیں، گلی محلوں کا تو اس سے بھی خراب حال ہے تعلیمی اداروں کا بھی برا حال ہے کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔کراچی کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سزا دی جا رہی ہے اگر یوں کہا جائے کہ کراچی کو نہیں بلکہ کراچی میں رہنے والوں کو سزا دی جا رہی ہے تو صحیح ہوگا۔ نہ جانے کب یہ رسہ کشی ختم ہوگی، کون جیتے گا کون ہارے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ کراچی بنانے والے اگر فکر کریں سوچ سمجھ سے کام لیں تو آنے والے الیکشن میں حصہ لینے کے لئے ضروری ہے کہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے انتخابی مہم ایک ہو کر چلائیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلی جائے نہ صرف ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں بلکہ جماعت اسلامی اور جماعت اہلسنت اور دیگر سیاسی قوتوں کا بھی کراچی حیدر آباد میں ووٹ بینک ہے کو ملا کر مشترکہ طور پر الیکشن میں حصہ لیا جائے یقیناً اگر ایسا اتحاد بن جاتا ہے تو ان سب ہی جماعتوں کے ووٹ منتشر ہو کر ضائع ہونے سے بچ سکتے ہیں ۔مسلم لیگ نون نے نا تو پہلے کچھ کراچی کے لئے کیا نہ ہی آئندہ کے لئےکوئی امید کی جاسکتی ہے ہاں اگر تمام سیاستدان جنہیں کراچی سے دلچسپی ہے وہ آگے بڑھیںاور ایک قوت بن کر الیکشن کے میدان میں اتریں گے تو کامیابی ان کے قدم چوم سکتی ہے ،ورنہ ان کے ووٹر چاہنے کے باوجود کامیابی نہیں دلا سکیں گے۔ اگر کراچی کے ایک کروڑ ووٹر ایک ساتھ ایک طرف رخ کرلیں تو باقی مقابلے سے باہر ہوسکتے ہیں سب جماعتیں اگر مل کر ایک مشترکہ نشان کے تحت الیکشن میں حصہ لیں تو وہ ایسی مضبوط طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں کہ دنیا دیکھتی رہ جائے گی اور اقتدار بھی حاصل ہوسکے گا ورنہ تو سب یوں ہی رہے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ کراچی کے ہمدردوں کو سوچنا ہوگا اور ذاتی مفادات سے بلند ہو کر کراچی کی بھلائی، بہتری کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔ ایک قصہ کبھی پڑھا تھا کہ ایک کسان کے سات بیٹے تھے جب اس کا آخری وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور کہا کہ ہر ایک، ایک ایک تنکا لائے پھر اس نے ساتوں تنکوں کی ایک گھٹی بنا کر بیٹوں سے اسے توڑنے کو کہا کسی نے وہ تنکے جو ایک جان تھے نہیں توڑے پھر اس نے سب کو ایک ایک تنکا دیا تو سب نے توڑ دیا بوڑھے کسان نے کہا تم نے دیکھا کہ جب یہ معمولی تنکے ایک جگہ بندھے ہوئے تھے تو تم میں سے کوئی نہیں توڑ سکا اور جب الگ ہوئے تو سب ٹوٹ گئے اتحاد میں تمہاری طاقت ہے ورنہ سب کچھ بکھر جائے گا۔
ذرا سوچیں ،سمجھیں کراچی کہاں کھڑا ہے آج کراچی جس حال میں ہے ایسا تو گزشتہ تین دہائیوں میں کبھی بھی نہیں رہا۔ شہری پانی، بجلی سے محروم ہیں اسپتالوں میں دوائیں نہیں ہیں ڈاکٹروں کو تنخواہیں دینے کے لئے فنڈ نہیں مل رہے ،یہی عالم تعلیمی شعبے کا ہے اساتذہ پڑھانے کی جگہ اپنا گھر چلانے کی فکر میں ہیں تمام ترقیاتی کام رکے ہوئے ہیں اگر ایسے ہی رہا تو یقین ہے کہ نہ ایم کیو ایم کا کوئی دھڑا نہ جماعت اسلامی اور نہ ہی جماعت اہلسنت کوئی سیٹ حاصل کرسکے گی۔ حکومت سازی کی پوزیشن تو دور کی بات ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈر کو سوچنا سمجھنا ہوگا ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے اور کف افسوس ملنے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے اللہ ہماری، ہمارے وطن عزیز کی حفاظت فرمائے اور نیک و صالح افراد کر بر سر اقتدار لائے، آمین۔