بحیثیت قوم، بحیثیت معاشرہ ہم میں بہت ساری خامیاں ہیں بہت ساری خرابیاں ہیں اس میں بہت ساری باتیں ہمیں پہلے بھی معلوم تھیں اور زیادہ باتیں سوشل میڈیا کے ذریعے کھل کر سامنے آئیں کیونکہ موبائل فون کے ذریعے ہر کسی کے ہاتھ میں ایک ایسی ڈیوائس آ چکی ہے جسے بعض لوگ ’’فساد کی جڑ‘‘ کہتے ہیں اور بعض لوگ اسے ایک زبردست ایجاد کہتے ہیں لیکن اس بحث میں پڑے بغیر اگر ہم جائزہ لیں تو اس کیمرہ موبائل کے ذریعے ہم نے جہاں دنیا بھر میں وہ واقعات جو ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں دیکھے ہیں بلکہ اپنے بازاروں، مارکیٹوں، محلوں، گائوں قصبوں اور شہروں میں بھی ہونے والے واقعات دیکھے ہیں جن کے بارے میں کبھی کبھار کوئی بات سنتے ضرور تھے لیکن اس کو ذہن تسلیم نہیں کرتا تھا لیکن چوری، ظلم اور قتل و غارت کی بعض اوقات وہ خبریں بھی ہمارے سامنے آجاتی ہیں جنہیں ہماری حکومتوں اور اداروں کو ضرور دیکھنا چاہیے اور اس حوالے سے قوانین کو زیادہ سخت ، کمزوریوں کے خاتمے کیلئے پالیسی اور سدباب کیلئے اقدامات کرنے چا ہیں۔ اس حوالے سے جو سب سے زیادہ خطرناک صورتحال ہمارے سامنے آئی ہے وہ گلی محلوں اور دیہاتوں میں لگائی گئی نجی عدالتیں ہیں جس کے تحت کسی بھی شخص کو پکڑ کر یا تو اس پر اپنی جائزو ناجائز بات تسلیم نہ کرنے ، یا اس پر کوئی الزام لگا کر ایسا تشدد کرتے ہیں جیسے ان جاسوسوں سے بات اگلوانے کیلئے تشدد کیا جاتا ہے جو کسی ملک کے خلاف کام کررہے ہوتے ہیں۔ ان واقعات میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کسی علاقے یا محلے کا اوباش ہیجڑوں پر تشدد کررہاہے تاکہ علاقے میں اور خاص طور پر ہیجڑوں کی کمیونٹی میں اس کا رعب اور دبدبہ قائم رہے ، ہم نے یہ بھی دیکھا کہ گائوں میں وڈیروں کی بنی ہوئی پنچائیت نے والد کے سامنے نوجوان کو الٹا لٹا کر اس پر تشدد کیا ۔ہم نے یہ بھی دیکھا کہ محبت و الفت کے دام میں پھنسا کر خفیہ کیمروں کے ذریعے کس طرح نوجوان لڑکیوں کو رسوا کیا گیا، ہم نے بینکوں میں ہونے والے ڈکیتیوں کی فوٹیج بھی دیکھیں ہم نے موٹرسائیکل اور گاڑیوں کے سائیڈ مرر اتارنے کے واقعات کے ساتھ ساتھ گاڑیاں اور موٹرسائیکل چوری ہونے کی ویڈیوز بھی دیکھیں گو کہ یہ سب موبائل کیمرے کے ذریعے ہی نہیں سی سی ٹی وی کے ذریعے بھی بنائی گئی ہیں لیکن یہ سارے واقعات ہم نے دیکھے ہیں۔ حال ہی میں ڈسکہ میں چند خواتین جن کی گود میں شیر خوار بچے بھی تھے، کو چوری کرتے ہوئے پکڑ کر دُکانداروں نے جس طرح ان کی تذلیل کی ہے وہ بھی لمحہ فکریہ ہے ، چوری بری بات ہے ،بعض لوگ عادتاً چوری کرتے ہیں اور بعض لوگوں کو حالات اس نہج پر لے آتے ہیں کہ وہ اس صورتحال تک پہنچ جاتے ہیں ، دونوں صورتوں میں چوری کا یہ عمل برا ہے ، لیکن جس طرح ان خواتین کو دکان میں بٹھا کر باریش دکاندار ان کے دوپٹے کھینچ کر ان کے بال نوچ رہے ہیں اور اس سارے عمل کی ویڈیو بنائی گئی ہے وہ قابل افسوس ہے ۔کاش کہ ان دکانداروں میں سے کوئی شخص ان خواتین کے ساتھ اس سلوک کی مخالفت کرتے ہوئے انہیں اپنی بیٹیوں کی جگہ تصور کرتا اور ان کی غلطی کی انہیں یو ں سزا دینے کی مخالفت کرتا کیونکہ یوں تو کسی مرد پولیس اہلکار کو بھی عورتوں کے ساتھ سلوک روا رکھنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ ان کیلئے خواتین پولیس اہلکار ہی پوچھ گچھ کی مجاز ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ معاشرہ اس گراوٹ کا شکار ہوتا جارہاہے کہ زبان دانتوں کے تلے آجاتی ہے اور ہم اسے ایک معمولی نوعیت کا واقعہ سمجھ کر آگے نکل جاتے ہیں، حکمران سمجھتے ہیں ہمارے سارے مسائل کا حل صرف موٹرویز، میٹرو سروس یا اورنج ٹرین اور یا پھر بچوں میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنا ہی ہے اور یہ کام بھی بڑے شہروں میں ہی کرنے کے ہیں ۔ الٹے ٹینکر سے پیٹرول بھرنے والوں کی جلی ہوئی لاشیں ہمارے منہ پر ایک طمانچہ ہیں یہ محض ایک حادثہ نہیں تھا بلکہ ہمارے اندر چھپی ہوئی لالچ ، ہماری غربت اور بطور معاشرہ سرکاری وسائل یا دوسروں کے مال کو لوٹ کا مال سمجھنا ہے ، اتنے بڑے واقعہ کے باوجود گزشتہ دنو ں جب آئل ٹینکر کے کئی واقعات پیش آ ئے تو لوگوں میں لوٹ کے وہ جذبے کم ہوتے نہیں دیکھے گئے بلکہ ایک ویڈیو میں ہم نے دیکھا کہ پولیس کے روکنے کے باوجود لوگ کبڈی کے کھلاڑیوں کی طرح جل دے کر کبھی ایک طرف سے تو کبھی دوسری طرف سے نکلتے رہے اور ان کے سامنے پولیس بے بس نظر آئی ، اس کے بہت سارے عوامل ہیں جن کو سوچنا حکومت اور اسمبلیوں کا کام ہے ، گاؤں دیہاتوں میں کام کرنے والے کسانوں کو ان کی فصلوں اور اجناس کا معقول معاوضہ نہیں دیا جاتا وہاں پورے ملک کی طرح نہ صرف پولیس کا نظام خراب ہے بلکہ بہت برا ہے، طاقتور کمزور کا استحصال کرتا ہے بات موبائل فون سے شروع ہوئی کہ اس کے ذریعے کس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تک معاشرے کے برے ہونے کی اطلاعات پہنچتی ہیں لیکن اگر معا شرے کی اس خرا بی کی جڑ تک نہ پہنچا گیا تو حالات مزید خراب ہونگے، نہ ہماری اسمبلیوں میں اچھے لوگ آسکیں گے نہ پولیس بہتر ہوسکے گی اور نہ ہی ذیلی عدالتوں سے جلد انصاف مل سکے گا اور ہم تماشائیوں کی طرح سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز دیکھ کر آگے بڑھ جائیں گے اور معاشرہ پلاسٹک کے ایک ایسے شاپر کی طرح ہمارے ماحول کو پراگندہ کرتا رہے گا جس میں صرف تباہی ہے ۔