• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران کے پیش کردہ خطوط مبہم، غیر مصدقہ، گمراہ کن ہیں، حنیف عباسی کے اعتراضات

Todays Print

اسلام آباد( رپورٹ :رانا مسعود حسین )عدالت عظمیٰ میں ʼ پی ٹی آئی کی مبینہ غیر ملکی فنڈنگ اور اسکے سربراہ عمران خان کی عوامی عہدہ کیلئے نااہلیت سے متعلق مقدمہ میں عمران خان کی جانب سے جمع کروائی گئی دستاویزات کے حوالے سے درخواست گزار حنیف عباسی نے متفرق درخواست کے ذریعے سپریم کورٹ میںاپنے اعتراضات داخل کروادیئے ،جن میں کہاگیا ہے کہ عمران خان کے پیش کردہ خطوط مبہم، غیر مصدقہ، گمراہ کن اور مسترد کئے جانے کے قابل ہیں۔

انکم ٹیکس کٹوتی سے متعلق ٹھوس شواہد فراہم نہیں کئے، جھوٹے بیان حلفی پر فوجداری کارروائی بنتی ہے، عدالت صادق اورامین نہ ہوناقراردے۔ مسول علیہ کا نان ریذیڈنٹ ہونا بھی ناقابل یقین ہے۔ انہوںنے پہلے فلیٹ کی قیمت 117000برطانوی پائونڈز بیان کی تھی لیکن اب 117500برطانوی پائونڈز بتائی ہے۔ انہوں نے آج سے قبل فلیٹ کو مورگیج کرانے کا کبھی نہیں بتایا تھا اور مورگیج میں بھی بہت سے خلا ہیں۔

درخواست گزار نے سوموار کے روز اپنے وکیل محمد اکرم شیخ کے توسط متفرق درخواست کے ذریعے جمع کروائے گئے اعتراضات میں عمران خان کی جانب سے 22جولائی 2017 کو جمع کروائے گئے تحریری بیان میں ظاہر کئے گئے منی ٹریل پر مزید اعتراضات اٹھا تے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ مسول علیہ نے لندن فلیٹ کے حوالے سے ایک نیانیو ٹرن لیتے ہوئے اپنے پرانے دعویٰ کے برعکس عوامی اجتماعات اور قومی اسمبلی میں تقریرکے دوران متعد دبار کہاہے کہ یہ فلیٹ 1983میں خریدا تھا لیکن تازہ بیان میں کہاہے کہ یہ فلیٹ 1984میں خریدا تھا ،یہ نہ صرف ان کے پرانے دعویٰ کے برعکس ہے بلکہ ان کی جانب سے 23مئی کوعدالت میں جمع کروائے گئے بیان حلفی کے بھی متضاد ہے،جسکے بعد وہ صادق اور امین نہیں رہے، اسلئے عدالت انہیں صادق اور امین نہ ہونا قرار دے جبکہ جھوٹا بیان حلفی دینے کی پاداش میں ان کیخلاف فوجداری کارروائی بھی بنتی ہے۔

مزید براں 23مئی تک لندن فلیٹ کی مورگیج کا کوئی ذکر نہیںملتا ،اس حوالے سے جمع کرائی گئی دستاویزات بھی نامکمل ہیں، کیونکہ یہ دستاویزات 1987سے لیکر1990کے عرصہ سے متعلق ہیں جبکہ مبینہ طور پرمورٹگیج 1984میں ہوئی تھی ،لندن فلیٹ کی ادا کی گئی رقم میں بھی واضح فرق ہے، ابتدائی بیان اور بیان حلفی میں اس کی ادائیگی 117000برطانوی پائونڈز لکھی گئی تھی لیکن اب عدالت میں پیش کی گئی ٹرانسفر ڈ کے مطابق 117500برطانوی پائونڈز ادا کئے گئے تھے ،ابتدائی بیان میں مسول علیہ نے کہا تھا کہ بنی گالہ کی جائیداد کیلئے رقم راشد علی خان کو بھجوائی گئی تھی اور بعد میں فروخت کنندہ کو ادا ہوئی تھی،لیکن بعد میں جب ایک ایک ادائیگی کی ترسیل سے متعلق پوچھا گیا تو بیان بدل لیا ،درخواست گزار نے مزید لکھا ہے کہ مسول علیہ کے جواب میں لف کی گئی تین چٹھیوں کا تعلق 1977 سے 1988تک کے عرصہ سے متعلق ہے جبکہ مسول علیہ نے 1971 سے 1977 تک کی آمدن سے متعلق کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا۔

مسول علیہ نے کرکٹ سے ہونے والی آمدن پر انکم ٹیکس کی کٹوتی سے متعلق بھی کوئی ٹھوس شواہد فراہم نہیں کئے جس کی بناء پر ان چٹھیوں پر سوالیہ نشان جنم لیتے ہیں، یہ چٹھیاں غیر تصدیق شدہ ہیں اور انکی کوئی سرکاری حیثیت نہیں، جواب کے صفحہ نمبر 5پر لف سسکس کنٹری کرکٹ کلب کا لیٹر بھی قابل یقین نہیں اور کسی ریکارڈ کا حصہ ہونے کی بجائے محض لکھنے والے کی یاداشتوں پر مبنی ہے، جبکہ مسول علیہ نے خود بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ کلب تنخواہوں کا ریکارڈ نہیں رکھتا۔

مسول علیہ کے 1984تا 1985کے عرصہ سے متعلق بیان بھی مبہم ہے اور اس کا واحد ماخذ ایک ای میل اکائونٹ ہے جوکہ کسی انٹر نیٹ لنک یا ویب سائٹ ایڈریس کے بغیر ہے، جواب میں شامل کی گئی ایک دستا ویز یہ واضح کرنے میں ناکام رہی ہے کہ مسول علیہ 182دن سے زائد عرصہ پاکستان سے باہر رہے ہیں، جس کی بناء پر انکم ٹیکس قانون کے تحت انہیں نان ریذیڈنٹ قرار دیا جا سکے جبکہ مسول علیہ کی دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ ایک ٹرم میں ان کا قیام 6ماہ سے زائد تھا۔

مسول علیہ کی جانب سے ظاہر کیا گیا کنٹریکٹ نامکمل ہے اور اس پر کسی کے دستخط نہیں ، جبکہ معاہد ہ کی سچائی جانچنے کے لئے مشتاق احمد کا بیان حلفی بھی لف نہیں۔ مسول علیہ نے کہا تھا کہ انہیں 1971میں پاکستان کے لئے کرکٹ کھیلنے کے لئے منتخب کیا گیا تھا لیکن اس صورت میں ان کا بیرون ملک رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ درخواست گزار نے فاضل عدالت سے استدعا کی ہے کہ متفرق درخواست نمبر 5238/2017کو بے بنیاد ،مبہم اور گمراہ کن ہونے کی بناء پر خارج کردیا جائے۔

تازہ ترین