• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ نواز شریف کو نااہل قرار نہیں دے سکتی،عرفان قادر

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں میزبان سے گفتگو کرتے ہوئے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ مفاد عامہ کے کیس ماضی نہیں مستقبل کے لیے ہوتے ہیں ،آئین کے مطابق مفاد عامہ کے کیس عدالت میں آتے ہیں ،جس کے خلاف فیصلہ ہونا ہو اس کو اپیل اور ٹرائل کا حق دینا ہوگا۔

عمران خان کے خلاف بھی فیصلہ 184 تھری کے تحت نہیں ہوسکتا،سپریم کورٹ 184/3کے تحت عمران خان اور نواز شریف کو نااہل قرار نہیں دے سکتی، شفاف ٹرائل کا اصول ہمیشہ سے آئین میں رہا ہے ،آرٹیکل 184 تھری ان معاملات پر اپلائی نہیں ہوتا جس میں ٹرائل ہونا ہو۔

وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا کہ تجاوزات کے خلاف کارروائی میں اس جگہ پولیس اہلکاربھی موجود تھے، خودکش حملہ آور حلیے سے افغان شہری لگتا ہے ، خودکش حملہ آور کی ٹانگ اور جسم کے کچھ حصے ملے ہیں، حملہ آور کی عمر 20 سے 22 سال کے درمیان لگتی ہے۔

میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں قیام امن اور دہشتگردی کے خاتمے کیلئے آپریشن پر آپریشن ہورہے ہیں، اس بات میں کوئی شک نہیں پاکستان میں نسبتاً امن بھی آیا ہے لیکن دہشتگرد موقع ملتے ہی اپنے اہداف کو نشانہ بنارہے ہیں، پیر کو لاہورپھر دہشتگردوں کا ہدف رہا، فیروز پور روڈ پر تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری تھا ، پولیس اہلکار سبزی منڈی میں آپریشن کیلئے قائم کیمپ میں تعینات تھے اسی دوران علاقہ دھماکے سے گونج اٹھا، دہشتگردی کی اس کارروائی میں نو پولیس اہلکاروں سمیت 26افراد شہید اور 60 سے زائد زخمی ہوئے۔

شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کی منی ٹریل کے سارے ثبوت آگئے ہیں جو عدالت میں جمع کروادیئے جائیں گے، عمران خان کے کیری پیکر سے معاہدہ ، اس کی بینکنگ ٹریل اور کائونٹی کرکٹ کے ملنے والے پیسوں کی بینکنگ ٹرانزیکشن کے ثبوت مل گئے ہیں جس کے بعد عمران خان کا منی ٹریل مکمل ہوگیا ہے، دو سوال پیدا ہوتے ہیں پہلا سوال یہ کہ عمران خان مسلسل ان لوگوں پر تنقید کررہے تھے جو یہ کہہ رہے تھے کہ آپ خط کیوں لے آئے ہیں بینکنگ ٹرانزیکشن دیں۔

عمران خان کہہ رہے تھے میں نے سارا بینکنگ ٹرانزیکشن دیدیا مجھ پر غلط الزام لگایا جارہا ہے، اب تحریک انصاف نے دعویٰ کیا ہے کہ ثبوت موصول ہوگئے ہیں تو غالباً یہ تنقید درست تھی کہ عمران خان نے ابھی تک بینکنگ ٹریل نہیں دیا تھا اور محض خطوط کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں ثبوت پیش کررہے تھے، دوسرا سوال جوا س ٹرانزیکشن سے سامنے آرہا ہے اور جو ثبوت تحریک انصاف کے ذرائع سے ہمارے ساتھ شیئر کیے گئے ہیں اس میں بینکنگ ٹرانزیکشن کے سسیکس سے ملنے والے کچھ پیسے شامل ہیں جس کی مثالیں دی گئی ہیں کہ 23مئی 1988ء کو کس طریقے سے 2ہزار 211پائونڈ عمران خان کے اکائونٹ میں آئے، 21جون 1988ء کو کیسے عمران خان کے اکائونٹ میں 2ہزار 597پائونڈ آئے، پھر جولائی 1988ء کو مزید 2ہزار 609 پائونڈز عمران خان کے اکائونٹ میں آئے، 23اگست کو پھر آئے اور پھر 23ستمبر کو 2ہزار 777 پونڈ آئے، ساتھ میں بارکلیز بینک کی طرف سے ٹرانزیکشن کا ثبوت بھی دیا گیا ہے کہ کیسے یہ مختلف پیسے ٹرانسفر ہورہے ہیں، اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کی جہاں یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ انہیں سسیکس سے پیسے مل رہے تھے مگر یہ امائونٹ اتنا نہیں ہے جتنا کلیم کیا گیا ہے یا جو ہمارے ساتھ شیئر کیا گیا وہ امائونٹ اتنا نہیں ہے، سپریم کورٹ کو کیا پورا امائونٹ دیا جائے گا، یہ معاملہ اب بڑا آسان ہے اگر بارکلیز بینک کا اس وقت کا ریکارڈ مل گیا تو عمران خان بارکلیز بینک کو ایک خط لکھیں اور 80ء کی دہائی میں جتنے بھی پیسے ٹرانسفر ہوئے ان سب کا ثبوت سپریم کورٹ میں جمع کروادیں، ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کیری پیکر نے کس طریقے سے 75ہزار پائونڈ عمران خان کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کیے اس کے ثبوت مل گئے ہیں، ہمیں جو انڈیکس دیا گیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ 7مارچ 1984ء کو عمران خان کے سیونگ اکائونٹ میں کیری پیکر والے 75ہزار پائونڈ ٹرانسفر ہوئے ، ہم نے سوال کیا کہ کیری پیکر تو عمران خان نے 1977-1979ء کھیلی تھی تو یہ 1984ء کا آپ انڈیکس بتارہے ہیں، بینکنگ ٹریل بھی کیا 1984ء کا ہے یا اس سے پہلے کا ہے؟ تو جواب ملا کہ یہ جو 75 ہزار پائونڈ ہیں یہ عمران خان نے ہوسکتا ہے سیونگ اکائونٹ میں منتقل کیے ہوں مگر ہم سپریم کورٹ کو جو ثبوت دینے جارہے ہیں وہ 1977ء سے 1979ء میں کیری پیکر کھیلنے کے بعد عمران خان کو جو پیسے ملے اس کا پورا بینکنگ ٹریل دیں گے،اب تک چند بینکنگ ٹرانزیکشنز کے ثبوت ضرور شیئر کیے گئے ہیں مگر تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ پورا بینکنگ ٹرانزیکشن دیا جائے گا جس میں یہ سوال اپنی جگہ رہ جاتا ہے کہ پھر آپ ان لوگوں پر تنقید کیوںکررہے تھے جو آپ سے بینکنگ ٹریل دینے کا کہہ رہے تھے۔ 

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ اگر تحریک انصاف سارے ثبوت دیدیتی ہے تو سوال پیدا ہوگا کہ جب عمران خان سارے ثبوت لے کر آگئے ہیں تو شریف خاندان 80ء اور 90ء کی دہائی کے ثبوت کیوں نہیں دے سکتا ، خورشید شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ نااہلی کی تلوار صرف نواز شریف کے اوپر ہی نہیں لٹک رہی عمران خان بھی نااہلی کے خطرے سے دوچار ہیں، خورشید شاہ دعویٰ کررہے تھے کہ اگر نواز شریف جائے گا تو عمران خان بھی جائے گا، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کبھی عوامی عہدے پر نہیں رہے ،عمران خان اور نواز شریف دونوں کے کیس مختلف ہیں، دونوں کے کیسوں کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا، دونوں پر الزامات کی نوعیت ایک جیسی نہیں لیکن ثبوتوں کی نوعیت ایک جیسی بن گئی تھی، عمران خان نے خود اصول طے کیے تھے کہ اس طریقے سے منی ٹریل ہونی چاہئے ، نواز شریف اپنی منی ٹریل دیں اگر مجھ سے مانگی گئی تو میں اپنی منی ٹریل دوں گا، اصولی طور پر عمران خان 70کی دہائی کی کیری پیکر سیریز ہویا 80کی دہائی میں سسیکس کیلئے کائونٹی کرکٹ کھیلنا ہو دونوں میں ہی اپنا مکمل بینکنگ ٹریل دینے کے قانونی طور پر پابند نہیں ہیں، جو قانون پاکستان یا دنیا میں وضع ہیں اس کے تحت وہ یہ ٹریل دینے کے پابند نہیں ہیں، مگر عمران خان نے یہ سارے ثبوت دینے کا دعویٰ کیا تھا اس لئے سوال اٹھ رہا تھاکہ دونوں طرف سے مکمل منی ٹریل پیش نہیں کیا گیا، دونوں طرف سے برسوں پرانا ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا، قانون کے مطابق برسوں پرانا ریکارڈ پیش نہ کرنا جرم نہیں ہے لیکن عمران خان کے اصولوں کے مطابق جرم ہے، اگر یہی اصول عمران خان پر لاگو کیا جائے تو جس جرم کا ارتکاب شریف خاندان نے کیا ہے عمران خان پر بھی وہی بات ہورہی تھی لیکن اب تحریک انصاف کا دعویٰ ہے انہیں تازہ ترین ثبوت اور بینکنگ ٹریل مل گئے ہیں۔

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ عمران خان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے اثاثے چھپائے اور اپنی آف شور کمپنی ظاہر نہیں کی، گزشتہ سماعت پر عدالت نے عمران خان سے لندن فلیٹ کی منی ٹریل طلب کی، چیف جسٹس ثاقب نثار نے تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کو کہا تھا کہ ادائیگی کا ثبوت ہم نے خود مانگا تھا، عدالت دیکھناچاہتی ہے کہ پیسہ پاکستان سے منی لانڈرنگ کے ذریعہ تو نہیں گیا، آپ نے ہمیں مطمئن کرنا ہے کہ عمران خان نے فلیٹ کن پیسوں سے خریدے اورا دائیگی کیسے ہوئی، معاملہ پبلک آفس ہولڈر کی ایمانداری کا ہے، آف شور کمپنیاں عموماً پیسے چھپانے اور منی لانڈرنگ کیلئے استعمال ہوتی ہے، یہ بہت اہم ریمارکس تھے جس پر ہفتے کو عمران خان کی طرف سے لندن فلیٹس کی خریداری کا منی ٹریل پیش کیا گیا مگر اس منی ٹریل نے سوالات کو جنم دیا، وہ سوالات اس لئے نہیں اٹھے کہ عمران خان نے کرپشن کی ہے بلکہ ان اصولوں کیلئے اٹھے جو عمران خان نے اپنے اور دوسروں کیلئے طے کیے، عمران خان کی طرف سے ایک لاکھ 17 ہزار پائونڈ کے فلیٹ کی منی ٹریل کیلئے دو خطوط اورا یک ای میل پیش کی گئی، اس منی ٹریل پر کچھ اعتراضات ن لیگ کی طرف سے اٹھائے گئے، اس حوالے سے ہم نے بھی تحقیقات کیں، ن لیگ کی طرف سے اٹھائے گئے کچھ اعتراضات میں وزن نہیں ہے لیکن کچھ اعتراضات بہرحال اہم تھے، ن لیگ نے الزام لگایا کہ عمران خان نے منی لانڈرنگ نہیں کی وہ خودکفیل تھے تو پھر انہوں نے فلیٹ مارگیج پر کیوں لیا، مارگیج کر کے بھی رقم تو خود ہی ادا کی جاتی ہے اس لئے اس الزام میں دم نظر نہیں آتا ، برطانیہ اور مغربی ممالک میں عام طور پر لوگ مارگیج کر کے پراپرٹی لیتے ہیں، لوگوں کے پاس بہت پیسہ ہوتا ہے مگر سستی مارگیج ملتی ہے اس کے باوجود مارگیج کرواتے ہیں، یہ دلیل جب آپ کے پاس پیسے ہیں تو آپ مارگیج کیوں کروائیں گے شاید پاکستان میں تو اپلائی ہوتی ہو کہ آپ مارگیج کیوں لیں گے اگر آپ کے پاس پیسہ ہے لیکن برطانیہ میں اپلائی نہیں ہوتی۔ 

شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ عمران خان نے سپریم کورٹ کے سامنے موقف اختیار کیا کہ انہوں نے 1971ء سے 1988ء تک کائونٹی کرکٹ کھیلی اور اس کی آمدنی سے فلیٹ خریدا، انہیں کیری پیکر کرکٹ کے 75ہزار ڈالر جبکہ نیو سائوتھ ویلز آسٹریلیا کی طرف سے کھیلنے کیلئے 50ہزار پائونڈ ملے، عمران خان نے اپنے جواب میں لکھا کہ کائونٹی کرکٹ اپنا بیس سال سے پرانا ریکارڈ نہیں رکھتی اس لئے کائونٹی کرکٹ کھیلنے اور آمدنی کا ریکارڈ موجود نہیں، جواب میں اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ عمران خان اپنی ملازمت کے شیڈول کا ریکارڈ بھی نہیں رکھتے مگر یہ واضح رہے کہ انہوں نے کسی قسم کی منی لانڈرنگ نہیں کی، عمران خان نے اعتراف کیا کہ ان کے پاس اپنی ملازمت کے شیڈول کا ریکارڈ بھی نہیں مگر انہوں نے اپنی آمدنی کی وضاحت کیلئے کرکٹر مشتاق احمد کے معاہدے کی کاپی اپنے جواب میں شامل کی اور لکھا کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح ان سے کم شہرت رکھنے والا کرکٹر کتنی تنخواہ اور سہولتیں لیتا تھا تو ظاہر ہے مجھے زیادہ ملتی ہوں گی، عمران خان نے جو کائونٹی کرکٹ کھیلی اس کا ریکارڈ نہ عمران خان کے پاس اس وقت تک نظر آتا تھا نہ انگلش کلب کے پاس تھا، نہ ہی عمران خان نے ان ادائیگیوں کی بینکنگ ٹریل جمع کروائی، اب تحریک انصاف کی طرف سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ منی ٹریل مکمل کرلی گئی ہے مگر یہ سپریم کورٹ کے جواب کا حصہ نہیں، اسی طرح عمران خان کے جواب میں ایک اور تضاد بھی سامنے آیا۔

عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے لندن فلیٹس 1983ء میں نہیں 1984ء میں مارگیج کیا، اس سے پہلے عمران خان خود بار بار کہتے رہے کہ انہوں نے فلیٹ 1983ء میں خریدا، اس حوالے سے ٹوئٹ بھی کی لیکن اب واضح کیا ہے کہ انہوں نے فلیٹ 1984ء میں مارگیج کیا تھا اور اس کی ادائیگیاں 1989ء میں مکمل کیں، اس دعوے کی حمایت میں عمران خان نے چند خطوط کی مدد لی، آسٹریلین کمپنی سوان اسپورٹس پرائیویٹ لمیٹڈکا چار جولائی 2017ء کا لکھا گیا خط بھی اپنے جواب کا حصہ بنایا جس میں لکھا ہے عمران خان نے مارچ 1977ء میں ورلڈ سیریز کھیلنے کا تین سال کا معاہدہ کیا، سالانہ25ہزار پائونڈ ادائیگی کی گئی یعنی تین سال میں 75ہزار پائونڈ ادائیگی کی گئی، کمپنی کے ڈائریکٹر نے اپنے خط میں پیشکش کی کہ اگر مزید تفصیلات چاہئے ہوں تو ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے، سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ خط ثابت کرنے کیلئے کافی تھا کہ عمران خان کے ذرائع آمدنی کیا ہے، عمران خان کے پیش کیے گئے خط سے ایک اور تنازع بھی جڑ پکڑ رہا ہے، خط میں سوان اسپورٹس کا رجسٹریشن نمبر بھی دیا گیا، اگر آسٹریلیا کی سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی ویب سائٹ پر جاکر تصدیق کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ کمپنی تو 1984ء میں رجسٹر ہوئی، یعنی جس کمپنی سے عمران خان نے 1977ء میں معاہدہ کیا وہ آسٹریلیا کی سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق رجسٹر ہی 1984ء میں ہوئی ،یہ ممکن ہے کہ ورلڈ سیریز کے جس ڈائریکٹر نے 1977ء میں عمران خان سے معاہدہ کیا ہو اس نے 1984ء میں سوان اسپورٹس کمپنی قائم کردی ہو مگر انہوں نے پھرسوان اسپورٹس پرائیویٹ لمیٹڈ کے لیٹر ہیڈ پر کیوں یہ بات کی سمجھ نہیں آتا، عمران خان نے کائونٹی کلب کا ایک خط بھی اپنے جواب کا حصہ بنایا جس میں یہ تو تصدیق کی گئی کہ عمران خان 1977ء سے 1988ء تک پروفیشنل کرکٹر رہے مگر ان کی تنخواہ کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں مگر اب تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ بینکنگ ٹریل مل گئی ہے، لیکن جب تک بینکنگ ٹریل نہیں ملی تھی اس وقت اگر تنقید ہورہی تھی کہ آپ نے بینکنگ ٹریل نہیں دی آپ دوسروں سے مانگتے ہیں تو الزام لگایا جارہا تھا کہ آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں ہم نے تو پورا بینکنگ ٹریل دیا ہے، اس کے علاوہ عمران خان نے منی ٹریل کیلئے ایک ای میل بھی شامل کی جو کسی آفیشل اکائونٹ سے نہیں کی گئی۔

اس کے علاوہ عمران خان کے جواب کے مطابق 1987ء میں انہیں ایک لاکھ 90ہزار پائونڈ کا منافع بھی ہوا، اس دعوے کی حمایت میں عمران خان نے کچھ دستاویزات جمع کروائی ہیں مگر ان پر تاریخ واضح نہیں ہے، یہ منی ٹریل خود کئی سوالات اٹھارہی تھی جس کے جواب تحریک انصاف کہہ رہی ہے اب سے کچھ دیر پہلے موصول ہوگئے ہیں جو عدالت میں جمع کرائے جائیں گے۔ 

شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ اگر عمران خان اپنی منی ٹریل کے ثبوت لے آئے ہیں تو شریف خاندان پر بارِ ثبوت جس کی عدالت پہلے ہی ان پر ذمہ داری ڈال چکی ہے وہ زیادہ ہوجائے گا کیونکہ شریف خاندان اور ن لیگ کی طرف سے دونوں کیسوں کا موازنہ کیا جارہا تھا اور کہا جارہا تھا کہ ہم ثبوت نہیں دے سکے تو عمران خان بھی نہیں دے سکے، لیکن اگر تحریک انصاف کی طرف سے منی ٹریل دینے کا دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے تو شریف خاندان پر اس کا دبائو ہوگا۔

شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ امریکا کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی واضح نہیں لیکن ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے حوالے سے سخت رویہ اختیار کرتی نظرا ٓرہی ہے، ٹرمپ انتظامیہ کی نئی افغان پالیسی پر امریکا کے پاکستان سے دہشتگردی کیخلاف کارروائی کے مطالبات زور پکڑتے جارہے ہیں، امریکا حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے پاکستان کے رویے پر مسلسل ناراضی کا اظہار کررہا ہے، اکیس جولائی کو امریکی میگزین فارن پالیسی میں پاکستان کے حوالے سے خبر شائع ہوئی، اس خبر کے مطابق پینٹاگون نے پاکستان کو دہشتگردی کیخلاف لڑنے کی مد میں ملنے والی 300ملین ڈالر امداد روک دی ہے جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی میں ناکام نظر آرہا ہے، اہم بات یہ ہے کہ خبر میں امریکا کی اس خطے میں بدلتی ہوئی پالیسیاں بھی نظرا ٓرہی ہیں، خبر کے مطابق امریکی کانگریس اور دفاعی افسران نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکا خطے میں صرف افغانستان پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کرے گا بلکہ پاکستان پر بھی دبائو ڈالے گا کہ وہ اپنے مغربی علاقوں میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی پناہ گاہیں تباہ کرے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی پر قاتلانہ حملہ کیس میں پیشرفت ہوئی ہے، باہمت خدیجہ سخت حالات کے باوجود انصاف کیلئے ڈٹی ہوئی ہے، پیرکو لاہور کینٹ کچہری میں خدیجہ کیس کی سماعت ہوئی جہاں عدالت نے ملزم شاہ حسین کی اقدام قتل ختم کرنے کیلئے دائر درخواست خارج کردی ہے، ملزم کی خدیجہ کے ساتھ لی گئی اپنی تصاویر کو مقدمہ کا حصہ بنانے کی درخواست بھی عدالت مسترد کردی، ملزم نے عدالت میں یہ تصاویر اس لئے جمع کروائی تھیں کہ ان کو بنیاد بنا کر خدیجہ کی کردار کشی کی جائے تاکہ خدیجہ انصاف نہ مانگے بلکہ اپنی عزت کی خاطر خاموش ہوجائے لیکن عدالت نے ان تصاویر کو مسترد کردیا۔

وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا کہ لاہورہمیشہ دہشتگرد گروپوں کا ٹارگٹ رہا ہے، لاہور میں خودکش حملہ کرنے والا شخص افغان باشندہ لگتا ہے، لاہور خودکش حملے میں پولیس کے جوانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، دہشتگرد بڑے شہروں میں کارروائیوں سے لوگوں میں خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں، لاہور میں پچھلے کئی واقعات میں دہشتگردوں کو مقامی سہولت کار نہیں مل سکا جس کی وجہ سے حملوں میں کمی آئی ہے،پیر کے حملے میں بھی پچھلے دو حملوں کا پیٹرن دہرایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے پنجاب میں دہشتگردوں کیخلاف بھرپور کام کیا ہے، دہشتگردی کیخلاف سی ٹی ڈی پنجاب، رینجرز، عسکری اور سول انٹیلی جنس ایجنسیاں مشترکہ کوششیں کررہی ہیں۔

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ سپریم کورٹ نواز شریف اور عمران خان کے کیسوں میں اپنا دائرہ اختیار 184/3کے تحت استعمال کررہی ہے، آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت مفاد عامہ کے کیس آتے ہیں، سپریم کورٹ اس میں جنرل پرنسپلز آف لاء decide  کرتی ہے اور اس کا اطلاق ماضی میں نہیں مستقبل میں ہوتا ہے، آرٹیکل 184/3ان معاملوں میں استعمال نہیں ہوسکتا جس میں ٹرائل ہونا ہو، یہ معاملہ سپریم کورٹ کے دیکھنے کا نہیں ہے، شفاف ٹرائل کا اصول ہمیشہ سے آئین میں رہا ہے، جس ملک میں ایک دہشتگرداور قاتل کو اپیل کا حق حاصل ہے وہاں 184/3کے تحت براہ راست فیصلوں سے پارلیمنٹرینز ، سرکاری افسروں اور ججوں کو نکالا جائے گا تو یہ مفاد عامہ کے خلاف ہے، اگر ایک قاتل،دہشتگرد اور ریپ کرنے والے کو اپیل کا حق حاصل ہے تو پارلیمنٹرینز اور سرکاری افسران کو کیوں نہیں ہے۔

سپریم کورٹ 184/3کے تحت عمران خان اور نواز شریف کو نااہل قرار نہیں دے سکتی ہے، سپریم کورٹ کوآئندہ اگر کسی کو نکالنا ہے تو 184/3کے تحت فیصلہ دینے کے بجائے اسے ٹرائل اور اپیل کا حق دینا ہوگا، اگر سپریم کورٹ ایسا نہیں کرے گی تو اس دلدل میں پھنستی جائے گی۔ماہر بین الاقوامی امور معید یوسف نے کہا کہ پاکستان کے حوالے سے واشنگٹن میں مضبوط منفی رائے پروان چڑھ رہی ہے، واشنگٹن سے صرف ایک آواز آرہی ہے کہ پاکستان اور اس کی پالیسی ایک مسئلہ ہے، امریکا کی پاکستان سے متعلق پالیسی میں اب یہ تسلسل نظر آئے گا، امریکا کا موقف ہے پاکستان سے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی کارروائیاں بند ہوجائیں تو افغانستان کے معاملات بہت حد تک سلجھ جائیں گے، پاکستان اور امریکا کو باہمی تعاون کیلئے کھل کر بات کرنا ہوگی، پاکستان کو کابل سے تعلقات بہتربنانے کی ضرورت ہے، افغانستان اور پاکستان کے درمیان مسائل کا فائدہ دہشتگردوں کو ہوگا۔

معید یوسف کا کہنا تھا کہ پاک امریکا تعلقات اس نہج پر نہیں پہنچیں گے کہ پاکستان میں بمباری کی نوبت آجائے، امریکا ، پاکستان پر دبائو بڑھانے کیلئے امداد روکنے کے ساتھ سفارتی سطح پر تنہا کرے گا، سفارتی سطح پر تنہائی پاکستان کیلئے جنگ سے بھی بڑا مسئلہ ثابت ہوگی۔ 

تازہ ترین