• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی سازش کا شکارہے،مشاہداللہ

کراچی(ٹی وی رپورٹ)مسلم لیگ ن کے رہنما مشاہد اللہ خان نے کہا کہ میں  پہلے دن سے ایک بات کہہ رہا ہوں میں نے وزیراعظم سے دو تین مرتبہ کہی کہ آپ نے کچھ ایسے کام کئے ہیں کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آپ کو اس کا کریڈٹ دیا جاتالیکن آپ کو سزا بھگتنا پڑے گی، آپ نے پہلا دورہ چین کا کیا جب ایسا ہوتا نہیں ہے کہیں اور کے ہوتے ہیں ۔اس وقت پاکستان جس سازش کا شکار ہے بالخصوص ہماری حکومت وہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی سازش ہے اور یہ بات کچھ ثابت ہوچکی ہے کچھ مزید کچھ عرصے بعدہوجائے گی، مجھے افسوس ہے کہ نجم سیٹھی آپ کے ساتھ نہیں ہیں،ہوسکتا ہے وہ بہت پہلے آشکار کردیتے ہیں اگر وہ ہوتے تو وہ بہت ساری باتیں کرچکے ہوتے،یہاں پر پیسے تقسیم ہوئے، آپ کو پتہ ہے2014ء میں کیا نہیں ہوالیکن اس کا مقصد کیا تھاوہی مقصد جو2014ء میں تھاآج بھی وہی ہے،سوسائٹی کودومتضادگروہوں میں تقسیم  کرو،معاشی طاقت مت بننے دو۔انہوں نے کہا کہ میں پاناما کو نہیں کہہ رہا،میں ایک مستقل سازش کی بات کررہا ہوں،پاناما ایک چھوٹا سا ملک ہے جس پر تقریباً سی آئی اے کا قبضہ ہے،امریکیوں کے مجھے نام نظر نہیں آئے،صرف آئس لینڈ کے وزیراعظم کا براہ راست نام تھا،اس لئے اس نے استعفیٰ دیا ہے باقی کس نے دیا ہے ۔

جو کچھ ہمارے ملک میں ہورہا ہے یہ کرپشن کے خلاف نہیں ہورہا،یہ کرپٹ لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہورہا ہے،اگر کرپشن کے خلاف ہورہا ہوتا تو456 افراد کے خلاف یہ انکوائری ہورہی ہوتی،دو لوگوں کے خلاف نہیں ہورہی ہوتی اور جو لوگ کرپشن کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں وہ سارے کرپٹ ہیں،ان کی آ ف شور کمپنیاں ہیں۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے اوپر ہمارا اعتماد ہے،ہم نے کہا ہے کہ عدلیہ کا فیصلہ ہم قبول کریں گے، آج جو کچھ ہورہا ہے یہ خود سے نہیں ہورہا اس کے پیچھے کوئی کہانی ضرور ہے،نواز شریف کو ناکردہ گناہوں کی سزا بلکہ اس ملک سے اور اس ملک کی مٹی سے محبت کرنے کی کچھ لوگ سزا دینا چاہتے ہیں،نواز شریف کے کچھ اقدامات کی وجہ سے دنیا کے بہت سارے ملک وہ اپنے مقاصد کو پورانہیں کر پارہے،وہ بھی مسائل ہیں اس میں اپنے بھی ہیں،پرائے بھی ہیں،آہستہ آہستہ سب سامنے آجائے گا۔

وہ جیونیوزکے پروگرام’’آپس کی بات‘‘میں میزبان منیب فاروق سے گفتگو کررہے تھے۔پروگرام میں سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا،ماہرقانون کامران مرتضیٰ اورتحقیقاتی صحافی عمرچیمہ نے بھی حصہ لیا۔سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرانے کہا کہ  بدقسمتی یہ ہے کہ جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے اس وقت فوکس یہ کیا جاتا ہے کہ سیکورٹی میں خلاء کہاں پر تھی، کیا اقدامات کئے گئے تھے؟ کیا نہیں کئے گئے تھے؟ آپ پوری دنیا میں دیکھ لیں انسداددہشت گردی کی حکمت عملی  اس طرح نہیں بنتی۔یہاں پرفوری فیصلے کیے جاتے ہیں کوئی جامع میکنزم قومی سطح پر موجود نہیں ہے، ہم نے جو نیشنل ایکشن پلان بنایا وہ کوئی حتمی پلان میرے نزدیک نہیں تھا،آپ قانون اور اس کو نافذکرنے والے اداروں ،ان کی صلاحیت میں اضافہ کرلیں ، اُن کے ذریعے آپ دہشت گردی کوروک  سکتے ہیں۔

جیو کے پروگرام ’آپس کی بات‘میں میزبان منیب فاروق نے،لاہور ایک بار پھر دہشت گردی کے نشانے پر۔۔ ذمہ داری کا تعین کیسے ہو؟اس  واقعے سے متعلق تجزیہ دیتے ہوئے کہا کہ  پاکستان کی تاریخ میں ایک اور سیاہ دن جب لاہور میں فیروز پور روڈ پر ایک حملہ ہوا جس میں چھبیس قیمتی جانیں ضائع ہوئیں،ان میں پولیس کے اہلکار بھی شہید ہوئے ۔ سوال یہ ہے کہ ریاست پر براجمان حکومت جب ایسی حکومت کو اپنی سیاسی مستقبل کے حوالے سے ایک چیلنج کا سامنا ہو جب ملک کے وفاقی وزیر داخلہ جن کا نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ میں کلیدی کردار ہے جب وہ خود اپنے وزیراعظم سے خوش نہ ہوں تو ایسی صورت میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں،آج کا واقعہ اس سے پہلے کے واقعات اور اس طرح کے واقعات خدانخواستہ اگر آنے والے وقت میں بھی ہوتے ہیں تو کیا ہمارے پاس ان سوالات کے کوئی جواب ہیں کہ نہیں، آج جو سوالات اٹھائے گئے کیا یہ وہی سوالات ہیں جو ہم پچھلے کئی سال سے کرتے چلے آئے ہیں۔ کیا کوئی تبدیلی لاسکتے ہیں کم از کم اپنے سوالوں میں ۔

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مشتاق سکھیرا سابق آئی جی پنجاب نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے بہت افسوس ہے،میری اپنی فورس کے جوان شہید ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ جو سویلین شہادتیں ہوئی ہیں ۔مشتاق سکھیرا نے مزید کہا کہ میں نیشنل ایکشن پلان کی اس طرح بات کر رہا تھا کہ کوئی بھی پلان حتمی پلان نہیں ہوتا، آپ اُس کودہراتے  رہتے ہیں، آپ اپنے گول ایڈجسٹ کرتے رہتے ہیں ۔ آپ دیکھتے ہیں کس چیز کی زیادہ ضرورت ہے کس کی کم، اس لحاظ سے کوئی پلان حتمی نہیں ہوتا ۔آنر شپ کے حوالے سے بہت سارے ادارے جوتھے جن کے ذمے کام لگایا گیا تھا مثلا ً میں پنجاب کے حوالے سے کہہ سکتا ہوں کہ پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے بہت کام ہوا۔

مشتاق سکھیرا نے مزید کہا کہ نیشنل لیول پر اکٹھے ہو کر سب دیکھیں کہ کس ایریا میں کمی رہ گئی ہے اور کس ایریا میں اور کام کرنے کی ضرورت ہے اگر دہشت گردی کا چیلنج کسی قوم  کو ہے تو اُس وقت تک قابو نہیں کرسکتے جب تک پوری قوم کی آنر شپ نہ ہو۔ایک سوال کے جواب میں مسلم لیگ ن کے رہنما مشاہد اللہ خان نے کہا کہ عمران خان کا ہم مقابلہ کسی بھی محاذ پر نہیں کرسکتے اس لئے کہ جو چیزیں ان کے پاس ہیں وہ دنیا کی سیاسی تاریخ میں کسی کے بھی پاس نہیں ہیں۔انہوں نے بڑا مایوس کیا ہے منی ٹریل ہو یا ان کی بولی ہو یا ان کا طریقہ کار ہوجس طریقے سے انہوں نے اس ملک کی سوسائٹی کو پراگندہ کیا ہے جس طریقے سے انہوں نے لوگوں پر کیچڑ اچھالی ہے مجھے افسوس ہے میں اس کا جواب بھی نہیں دینا چاہتا،وہ اپنی ہر بات کوسمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کی سب سے صحیح ،اچھی اور سچی بات ان کی بات ہے جتنے ان کے مخالفین ہیں ان کی کوئی بھی بات صحیح نہیں ہے،ساری دنیا جہاں کے کیڑے جو ہیں وہ دوسروں کی ذات میں ڈھونڈتے ہیں،اپنی شخصیت میں انہوں نے کبھی کوئی داغ یا کیڑا نہیں ڈھونڈا۔

انہوں نے کہا کہ قطری خط تصدیق شدہ تھاسفارت خانہ سے جو طریقہ کار ہے ان کا خط پتہ نہیں کس ذریعے سے آیا ہے اور وہ تصدیق شدہ ہے یا نہیں ،جس طریقے سے انہوں نے اپنی ٹریل پیش کی ہے انہیں اس کا اندازہ نہیں ہے یہ خود پھنسیں گے،یہ اللہ کا ایک نظام ہوتا ہے ان سے ٹریل مانگی ہے جو کچھ انہوں نے جمع کرایا ہے،یہ اپنے لئے خود ہی کافی ہیں ۔

ایک سوال کے جواب میں مشاہد اللہ خان نے کہا کہ بات جو بھی اگر وہ چوہدری نثار علی خان کے منہ سے ہی اگر دنیا سنے تو وہ زیادہ بہتر ہے،میرے کہنے سے یا آپ کے کہنے سے اس کے مختلف زاویئے ہوسکتے ہیں،چوہدری نثار علی خان کی جماعت کے لئے بڑی قیمتی خدمات ہیں،وزیراعظم نواز شریف کے وہ پرانے ساتھی ہیں،میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر آج یہ پریس کانفرنس ہو بھی جاتی تو تب بھی وہ وزیراعظم کے ساتھی رہتے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں کہا کہ جماعت میں مشورے ہوتے رہتے ہیں اور ہر روز ہی ہوتے ہیں،میں آپ کو ایک بنیادی بات بتا دوں کہ پاکستان مسلم لیگ ن میں ایک ہی گروپ ہے اس کا نام پی ایم ایل این ہے اور اس کا ایک ہی لیڈر نواز شریف ہے،میں اس بات سے انکار نہیں کروں گا لوگوں کے اختلافات ہوتے ہیں اور ہیں اور جمہوری جماعتوں میں اگر اختلافات نہ ہوں تو وہ فاشسٹ جماعتیں ہوتی ہیں جس میں اختلافات نہ ہوں لوگوں کے اختلافات ہیں،اختلاف رائے ہے چوہدری نثار علی خان کا بھی بہت سارے لوگوں سے ہے،بہت سارے لوگوں کا ان سے بھی ہوسکتا ہے،بہت سارے لوگوں سے میرا بھی ہوسکتا ہے اور یہ نشانی اس بات کی ہے کے ہماری جماعت ایک جمہوری جماعت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں کہا کہ پرویز مشرف کی جماعت سے جو لوگ ہماری جماعت میں آئے ہیں وہ ہمارے لوٹے نہیں ہیں،شیخ رشید نہیں آیا ایک آدمی نے مشرف کے ساتھ اپنی سیاست کی ابتدا کی ہمارے ساتھ آگیا تو اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے،دوسری بات یہ ہے کہ اگر چوہدری نثار علی خان ہوں یااحسن اقبال ہوں انہوں نے اگر اپنے تحفظات کا اظہار کیاہے کہ ایک بات تو یہ ہے کہ یہ وقت نہیں تھا،دوسری بات یہ بھی تو ہے کہ یہ لوگ بولتے نہیں ہیں ایشو تو آج موجود ہے تو اگر ایشو پر اظہار خیال کسی فورم میں ہوجائے جو کہ ان کا ہوا ہے ایک فورم میں ہوا ہے کیبنٹ کی ایک باقاعدہ میٹنگ میں بات ہوئی ہے اور وہاں پر بھی اگر لوگ اپنے منہ پر تالے لگار کر بیٹھیں گے تو میڈیا یہ کہے گاکہ یار یہ کون سی جمہوری جماعت ہے کہ جہاں لوگوں کے ہونٹ سلے ہوئے ہیں۔

تازہ ترین