• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں کہ ’’بری خبر سے زیادہ بری چیز اِس کا انتظار ہے۔‘‘ شریف فیملی آج کل کچھ اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہے۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ پر کچھ روز سماعت کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے اور کسی وقت بھی وزیراعظم نواز شریف کی قسمت کا فیصلہ متوقع ہے۔ پورے پاکستان کی نظریں اس وقت شریف فیملی پر مرکوز ہیں حالانکہ پانامہ دستاویزات میں آف شور کمپنی رکھنے والوں میں صرف شریف فیملی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے کچھ دیگر نامور خاندان بھی شامل ہیں جن میں سرفہرست 34 آف شور کمپنیاں سیف اللہ خاندان کی ہیں۔ اس کے علاوہ پانامہ کی جانب سے لیک کی گئی دستاویزات میں 500 ایسی نامور پاکستانی شخصیات کے نام بھی منظرعام پر آئے جو آف شور کمپنیوں کے Benificial مالک ہیں جن میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے رہنمائوں، معروف کاروباری شخصیتوں، میڈیا ہائوسز کے مالکان، وکلاء، جنرلز اور ججز کے نام بھی شامل ہیں۔ ان شخصیات کے نام منظرعام پر آنے کے بعد ابتدا میں ایف بی آر نے کوئی ایکشن نہیں لیا اور موقف اختیار کیا کہ اخباری تراشوں پر ایف بی آر کوئی ایکشن نہیں لے سکتا تاہم کئی ماہ بعد ایف بی آر نے سیکشن 176 کے تحت آف شور کمپنیاں رکھنے والے صرف350 افراد کو نوٹسز جاری کئے جبکہ باقی افراد کا نادرا کے پاس کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں تھا۔ ان افراد میں سے بیشتر نے اپنی آف شور کمپنی ماننے سے انکار کردیا جبکہ کچھ آف شور کمپنیوں کے حامل افراد نے اپنے وکلاء کے ذریعے ایف بی آر کو لکھا کہ ’’ادارے کے پاس ایسی کوئی اتھارٹی نہیں کہ وہ اُنہیں نوٹسز بھیجے۔‘‘ واضح ہو کہ پاکستانیوں کا آف شور کمپنی رکھنا قانونی طور پر جرم نہیں۔
کچھ ماہ قبل ایف بی آر نے آف شور کمپنیاں رکھنے والے پاکستانیوں کے بینک اکائونٹس، اثاثوں اور سرمایہ کاری سے متعلق معلومات حاصل کرنے کیلئے پانامہ، بہاماس اور BVI کی وزارت خارجہ کو خط تحریر کئے مگر کسی بھی ملک نے کوئی جواب نہیں دیا، اس طرح ایف بی آر، آف شور کمپنیاں رکھنے والے پاکستانیوں کا کچھ نہ بگاڑ سکا تاہم عمران خان نے جب اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے پانامہ اسکینڈل کو شریف فیملی کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کیا تو اس سے یہ تاثر ابھرا کہ پانامہ لیکس کا تعلق صرف وزیراعظم کی فیملی سے ہے، اس طرح قانونی کارروائیوں کا فوکس صرف اور صرف شریف خاندان پر رہا حالانکہ شریف فیملی سے زیادہ آف شور کمپنیاں رکھنے والے خاندان بھی موجود ہیں مگر انہیں نظر انداز کرکے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
شریف فیملی کے ہدف بننے کی وجہ وہ بڑی غلطیاں تھیں جو شریف فیملی سے سرزد ہوئیں۔ پانامہ لیکس منظرعام پر آنے سے قبل وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے لندن میں موجود اپارٹمنٹس کی ملکیت کا جلد بازی میں اعتراف کرلیا جن کی ملکیت کے بارے میں شریف فیملی اس سے قبل انکار کرتی آئی تھی۔ اسی طرح پانامہ دستاویزات جب پاکستانی اخبارات کی زینت بنیں تو شریف فیملی نے آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا بھی اعتراف کرلیا جس نے شریف فیملی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اگر شریف فیملی آف شور کمپنیاں رکھنے والے دیگر پاکستانیوں کی طرح اپنی آف شور کمپنیاں تسلیم کرنے سے انکار کردیتی تو آج دوسرے پاکستانیوں کی طرح شریف فیملی کا بھی کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا اور نہ ہی جے آئی ٹی شریف فیملی کے خلاف اُن ممالک سے کوئی ثبوت حاصل کرسکتی تھی۔ وزیراعظم نواز شریف پر یہ الزام لگانا کہ اُن کے پاس یو اے ای کا اقامہ ہے، مناسب نہیں۔ یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ پاکستانی سیاستدانوں کی بڑی تعداد جن میں وزرائے اعلیٰ، وزراء اور اراکین اسمبلی بھی شامل ہیں، یو اے ای کا اقامہ رکھتے ہیں، اگر وزیراعظم کے معاملے میں اقامہ کو بنیاد بنایا گیا تو پاکستان کی سیاست میں بھونچال آجائے گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز امریکی گرین کارڈ ہولڈر تھے جبکہ سابق وزیراعظم معین قریشی صرف امریکی پاسپورٹ ہولڈر تھے اور وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے سے قبل اُنہیں پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کیا گیا۔
یہ امر قابل افسوس ہے کہ پانامہ لیکس کے حوالے سے تمام تر کارروائیاں صرف شریف فیملی جن میں وزیراعظم کے بیٹے حسین، حسن، بیٹی مریم، داماد کیپٹن صفدر، بھائی شہباز شریف، کزن طارق شفیع اور سمدھی اسحاق ڈار شامل ہیں، تک محدود رہیں جبکہ پانامہ لیکس میں شامل دیگر 500پاکستانی امن و سکون کے ساتھ شریف خاندان کا کیس انجوائے کررہے ہیں اور اُن افراد کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی جس سے عام آدمی میں یہ تاثر ابھررہا ہے کہ کیا پورے پاکستان میں صرف ایک ہی خاندان اس کیس میں ملوث ہے اور کیا صرف اسی خاندان کو سزا کا حقدار ٹھہرایا جائے؟ انصاف کا تقاضا ہے کہ احتساب اُن تمام افراد کا کیا جائے جن کی آف شور کمپنیاں اور بیرون ملک جائیدادیں ہیں یا پھر کسی کا بھی احتساب نہ کیا جائے کیونکہ کسی ایک فیملی کو احتساب کے کڑے عمل سے گزارنا اور اُن کی تضحیک کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔
موجودہ صورتحال میں جب جے آئی ٹی متنازع ہوچکی ہے جس نے ایک منتخب وزیراعظم کو اتنا کرپٹ بناکر پیش کیا کہ دوسرے کرپٹ سیاستدان اُن کے مقابلے میں معصوم نظر آنے لگے،ضروری ہے کہ ایسا فیصلہ آئےجوانصاف کے تقاضے پورے کرے تاکہ لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہوسکے اور یہ تاثر زائل ہوسکے کہ احتساب صرف ’’شریفوں‘‘ کا کیا جارہا ہے اور انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اگر نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تو اُن کے کروڑوں ووٹرز قبول نہیں کریں گے اور نہال ہاشمی اور کٹھ پتلیوں کی کہانی سچ ثابت ہوجائے گی جس کی ذمہ داری لوگ اداروں پر ڈالیں گے۔ پیپلزپارٹی کے لوگ کئی دہائیوں سے بھٹو کی لاش اٹھائے گھوم رہے ہیں اور اگر مسلم لیگیوں نے بھی نواز شریف کی نااہلی کا سیاسی جنازہ کندھے پر اٹھالیا تو ملک بے یقینی کا شکار ہوجائے گا جس کا نقصان صرف اور صرف پاکستان کو پہنچے گا۔

تازہ ترین